Tarjuman-e-Mashriq

اُسے جانے کی جلدی تھی

وہ ایک مختلف سا لڑکا تھا ۔۔۔ میرے خوبصورت اندرہل کی مٹی میں گوندھا ہوا لڑکا ۔۔ کم گو ، سلیقہ شعار اور محنت کشی پر یقین رکھنے والا ۔۔۔ وہ جہاں بھی جاتا وہاں اپنی خوشبو چھوڑا آتا ۔۔ میں اب اُس کے بارے میں سوچتا ہوں تو احساس ہوتا ہے وہ آیا ہی جلد واپس جانے کے لئے تھا ۔۔
جمیل ۔۔۔ روایات کا پیکر تھا ۔۔ وہ جب بھی وطن واپس جاتا پورا ایک دن پہلے مجھے فون کال کرتا ۔۔۔ “ پائی جی اللہ سوھنے نے حوالے“ کل تیاری ایہ ۔۔۔ کوئی سنیاہ پترا ؟
میں ہمیشہ اُسے کہتا ۔۔۔ جب تم دھان گلی پُل کے اُس پار پہنچنا ،،، جہاں سے میرا خمیر اُٹھا ہے تو میری دھرتی ماں کی خاک ہاتھ میں لے لینا اور پھر اُس پاک مٹی کو میرا سلام کہنا ۔۔۔ وہ اکثر مجھے کہتا کہ حُکم کی تعمیل ہوگی ۔۔۔ اور ساتھ ہی ہنسی مذاق میں کہہ دیتا کہ جب بھی شاہ جی کی دُکان کی جلیبی کھاوں گا ۔۔ آپ کو یاد کرتے ہوئے ایک “چھلا“ بھی کھا لوں گا ۔۔ ہُن خوش او کاشر صاحب “
میں غریب الوطنی میں رہنے والا وطن پرست چند لمحوں کے لئے مُسکرا لیتا ۔۔ یوں یہ گفتگو ختم ہوجاتی ۔۔۔
اب کی بار اُسے جانے کی جلدی تھی ۔۔۔ نہ فون کال آئی ۔۔ نہ آخری ملاقات ہوسکی ۔۔ وہ چپکے سے مُلکِ عدم کے سفر پہ چلا گیا ۔۔۔ اور مجھے خبر تک نہ ملی ۔۔۔
گزشتہ دو دنوں سے ایک وحشت ناک صورت حال کا سامنا ہے ۔۔۔ میرے جیسا حساس ذہن رکھنے والا ۔۔ جسے ہر لمحہ وطن اور اہل وطن کی فکر ستائے رہتی ہے ایک عجیب کیفیت میں مبتلا ہے ۔۔۔ جمیل کدھر چلا گیا ہے؟
مُجھے یاد ہے کہ جب بھی میرا “چھوٹے ڈڈیال“ برمنگھم جانا ہوتا تھا ۔۔ پتہ نہیں اُسے کیسے خبر لگ جاتی ۔۔۔ موبائل فون پہ میسج آجاتا ۔۔۔ “ پائی جی کوونٹری زیادہ دُور کونی “ اک چاہ ناں کپ تے دو بسکٹ “ صرف یہی میرے مطالبات ہیں ۔۔۔ پھر میں اُسے ٹالنے کے لئے کہہ دیتا کہ اغلی واریں روٹی تساں کولوں کھاساں ۔۔۔ مگر وہ ہار نہیں مانتا تھا اور جب تک تسلی بخش جواب نہ مل پاتا بضد رہا کرتا تھا ۔۔۔
میں نے اُس کی طبعیت میں ڈڈیال کی روایتی مہمان نوازی ۔۔ اعلیٰ مقامی روایات کی جھلک اور سب سے بڑھ کر ان چیزوں کا عملی مظاہرہ ہوتے دیکھا تھا ۔۔۔ ہائے میری روایات کا پیکر چلا گیا ۔۔۔ وہ خوبصورت مزاج تھا ۔۔۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ بلا کا سچا بھی تھا ۔۔۔ اور اُسے سچ بولنے کی ادا بھی یاد تھی ۔۔ ہائے سچ بولنے والا چلا گیا ۔۔۔
آخری گفتگو میں ، میں نے اُسے پوچھا ۔۔ بڑا بیٹا اب ماشا اللہ جوانی کی دھلیز پہ ہے ۔۔۔ تو ساتھ ہی مجھے کہنے لگا ۔۔۔ جی ہاں جی جوان ہورہا ہے اور ساتھ ہی کہنے لگا ۔۔۔ میں نے اُسے بتا دیا ہے کہ “پُتر اب تائے کاشر سے تمھاری ملاقات تمھاری شادی پر ہی ہوسکے گی“ ۔۔۔ ہائے اپنے پُتر کے سہرے کو اب کون سجائے گا ؟
میں غم و الم کی کیفیت میں ڈوبتے ہوئے آج تین دنوں بعد اُس کے لئے یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو میرے پاس روشنائی نہیں ہے ۔۔ دُکھ ہے ۔۔ آنسووں کا سمندر ہے ۔۔ یہ سمندر کوونٹری کے ایک گھر سے دہان گلی کے پُل کے اُس پار میرے محبوب وطن کی ایک گلی تک بکھرا ہوا ہے ۔۔ آئیے اُن آنسووں سے وضو کرلیتے ہیں ۔۔۔ معذرت خواہ ہوں اس وقت اور کُچھ نہیں بچا ۔۔۔ ہم سب ماتم دار ہیں ۔۔ میرے ڈڈیال کا بہیڑا “صحن“ ایک پُھوڑی“ نما تعزیت گاہ ہے ۔۔ اور ہم سب ڈڈیالی سوگوار ہیں ۔۔
میرا پُرسہ قبول کیجئیے !
میرا نوحہ قبول کیجئیے !
میرا دُکھ اپنے دُکھ سے جوڑ دیجئیے !
میرے آنسو اپنے آنسووں میں جذب کیجئیے !!
دُعا کے لئے بلند اپنے ہاتھوں میں میری تعزیت کو شامل کرلیجئیے ۔۔ کہ میں بھی آپ کا بالکا پُتر ہوں جسے اپنے دیس کی یاد ستاتی رہتی ہے !!
اور اے بلند تر ُخدا ۔۔۔ تو جمیل کی قبر کو جمیل تر فرما ۔ آمین
اُس کے بچوں کو ، اہل خانہ کو ۔۔ اہل خاندان کو ۔۔ سب غم گساروں کو صبرِ جمیل دے ۔ آمین
ذرا ٹھہرو مرے آنسو تو پورے خشک ہونے دو
ابھی آنکھوں میں تھوڑی سی نمی معلوم ہوتی ہے

 

Exit mobile version