تاریخ ہر مسئلے کا حل اور ہر مشکل آسان کرنے کا واحد اور مجرد نسخہ ہے۔ تاریخی حقائق مسخ کرنے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والی اقوام صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں اور تاریخ کے اوراق پر ایسی قوموں کا شمار عبرتناک انجام سے دو چار ہونے والی اقوام کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔ کائنات کی تاریخ قرآن حکیم ہے۔ خالق و مالک رب العالمیٰن کا فرمان ہے کہ کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ایسی نہیں ہے جسے لوح محفوظ پر لکھ نہ دیا گیا ہو۔ ہر چیز اللہ کے حساب میں ہے۔ اُس کا دستور نہ ٹلتا ہے اور نہ بدلتا ہے۔ علمائے حق اولیائے کاملین تاریخ کے سب سے بڑے معلم اور محقق ہیں اور اگر کوئی شخص تاریخ کے علم سے نا واقف ہے اور اُس کا علم قیاس آرائیوں اور مفروضوں پر مبنی ہے تو ایسا شخص نہ عالم ہے، نہ ولی ہے، نہ محقق ہے اور نہ ہی معلم ہے۔ میں نے اپنے مضمون ”تاریخ“ اور”عذاب یا انقلاب“کے علاوہ زیر طبع کتاب ”بد خشاں سے بھاولپور“ میں اپنے محدود علم کے مطابق تاریخ کے علم کی افادیت بیان کرنے کی سعی کی جسے میں اپنی جانب سے اہل وطن کی خدمت میں ایک ادنیٰ حصہ سمجھتا ہوں۔ الفاظ لکھے ہوئے ہوں یا زبان سے نکلے وہ ہمارے عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ اُن کی آواز آپ کے کانوں تک پہنچے یا اُن میں سے صاحب علم و قلم کی تحریر یں آپ کی نظر وں سے گزریں۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک تحریر بعنوان ”گریٹ گیم جاری ہے“ لکھی کہ گریٹ گیم کے ہمیشہ سے ہی دو میدان رہے ہیں جن میں ایک عرب و ایران اور ترکی ہے۔ دوسرا میدان بھارت، پاکستان، جنوبی چین، افغانستان اور سنٹرل ایشیائی ممالک ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ایک بڑے ٹیلی ویژن چینل پراس موضوع پر دو پر وگرام دیکھنے کو ملے تو خوشی اس بات کی ہوئی کہ اگرآپ کسی ایک گمنام گوشے میں بیٹھ کر کچھ سوچتے ہیں توآپ کی آواز اور سوچ رائیگاں نہیں جاتی۔ دنیا میں اور لوگ بھی ہیں جو یہی سوچ رہے ہوتے ہیں اور اُن کی آواز موثر او ر بلند ہوتی ہے۔ جنگ کسی بھی نوعیت کی ہو منصوبہ ساز قوت ہمیشہ ایک ایسی جگہ کا چناؤ کرتی ہے جو انتہائی حساس اور مخالف قوت کی سب سے بڑی کمزوری ہو۔ اگر ہم اپنے ملک کی ہی مثال لیں تو آج ہم ایک ایٹمی قوت ہیں۔ہماری افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے، ہم اُن چند ممالک میں شمار ہوتے ہیں جو دفاعی ساز وسمان اور اسلحے کے لحاظ سے تقریباً خود کفیل ہیں۔ اللہ نے ہمیں چار موسم دنیا کے بلند ترین پہاڑ، گلیشیر، دریا، قدرتی جھیلیں، جنگلات، صحرا، طویل سمندری ساحل اور ہر قسم کی غذائی اجناس پیدا کرنیوالی وافرزمین دی ہے۔ ہمارا ملک معدنیات سے مالامال ہے اور ہر طرح کی متبادل انرجی ملک کے اندر موجود ہے۔ مگر ہم بحیثیت قوم ناشکرے اور قدرت کے قانون اور دستور کو نہ ماننے والے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملکی دستور اور قانون کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ان قوانین پر عمل کرنے اور کرانیوالے والے اداروں میں بیٹھے افراد کرپٹ، بددیانت، مفادپرست، بے حس اور انا پرست ہیں۔ ہمارا تعلیمی، عدالتی اور حکومتی نظام عوام کی بیخ کنی اور خواص کی خدمت کو پیش نظر رکھ کر استوار کیا گیا ہے۔ جمہوریت ہو یا آمریت چند مخصوص خاندانوں کی ہی اجارہ داری قائم رہتی ہے۔
دیکھا جائے تو ان ہی بد اعمالیوں کی آڑ میں دشمن قوتیں کسی ملک، قوم یا خطہ زمین پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ دشمن یا مخالف قوتیں پہلا وار اپنی سوچ وفکر کے زور پر کرتی ہیں اور کمزور قوموں کے اندر ایسی سوچ کے حامل افراد تلاش کرتی ہیں جو اُن کے فکر و فلسفے کو عام آدمی کے قلب و ذہن پر ثبت کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔ قومیں مادی وسائل کی کمی کے باعث نہیں بلکہ قوت ارادی کے فقدان ذہنی انتشار وخلفشار، نفسیاتی کمزوریوں اور قیادت کے فقدان کی وجہ سے بے ہمت، بے اہمیت، بے وقعت اور شکست خوردہ ہو کر ذلت و رسوائی کے دلدل میں دھنس جاتی ہیں۔ایسے بد تر حالات کے باوجود مفاد پرست عناصر کی اہمیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور وہ دشمن قوتوں کے آلہ کار کی حیثیت سے اپنے مقام اور مرتبے پر قائم رہتے ہیں۔ اُن کے نظریے کے مطابق دولت، شہوت، شہرت اور حکومت ہی اصل زندگی ہے۔ ایسے لوگوں کے نظریے اور فکر میں وطینت، غیرت و حمیت اور عصبیت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
گریٹ گیم اور تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح نئی نہیں بلکہ پرانی ہے۔ قوت کا مقصد ہی تسخیر ہے۔ برترمادی قوتیں کمزور قوتوں، قوموں اور ملکوں کو مطیع و غلام بنا کر ان کے وسائل پرقابض ہو جاتی ہیں اور ان کمزور اور مغلوب اقوام سے ایسے لوگوں کا چناؤ کرتی ہیں جو برتر قو ت کا نظریہ، عقیدہ، ثقافت اور نظام حکومت اپنی قوم پر مسلط کرنے کا مشن جاری رکھتے ہیں۔ غلامی کی خو گرقومیں ایسے لوگوں کے فریب میں آکر انہیں قائد، لیڈر اور نجات دھندہ سمجھ کر اُن کی پوجا کرتی ہیں۔
تہذبیں کبھی متصادم نہیں ہوتیں بلکہ باہم مدغم ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ تہذیب کسی مذہب، عقیدے یافرقے کا نام نہیں بلکہ قوموں کی شناخت رہن سہن کے طریقوں، لباس و خوراک، طرز معاشرت، روایات اور علم وفن کا نام ہے۔ چونکہ دین و مذہب اور عقیدہ ایک معاشرتی اور ریاستی نظام وضع کرتا ہے تاکہ فرد اور معاشرہ عالمگیر قدرتی، الہی اور فلاحی ماحول میں پروان چڑھے۔ دین اللہ کے دستور کی تشریح کرتا ہے تاکہ معاشرے میں اخوت، محبت، رواداری اور اعتدال کا عنصر غالب ہو اور ان الہی، فلاحی اور اصلاحی بنیادوں پر ریاست کا وجود قائم ہو۔ ان اصولوں پر قائم معاشرہ ریاست کے وجود کی بنیاد رکھتا ہے اور ریاست کے نظام کو چلانے کے لئے جو اصول مرتب کیے جاتے ہیں انہیں عمرانیات یاسیاست کے علم سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عمرانیات یا سیاسیات کا علم فرد کو معاشرے اور معاشرے کو ریاست سے منسلک کرتا ہے۔ ریاستی نظام فرد اور معاشرے کو ہر لحاظ سے تحفظ فراہم کرتا ہے چونکہ فرد اور معاشرہ ہی ریاست کے وجو دکا ضامن ہے اور ریاستی امور چلانے والے اشخاص کو بیان کردہ اصولوں کے تحت حق حکمرانی دیتا ہے۔ معلمین سیاسیات نے فرد، معاشرے اور حکمران کے درمیان اس رشتے یا تعلق کو عمرانی معاہدے کا نام دیا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ حکمران ہمیشہ ہی ظلم و جبر، تکبر و رعونیت کے ہتھیار سے فرد اور معاشرے کا استحصال کرتے ہیں جوعلم سیاسیات کی مکمل نفی اورمعاہدہ عمرانی سے بغاوت ہے۔ چونکہ چند لوگ یا خاندان ملکر عام لوگوں کے حقوق پر ڈاکا زنی کرتے ہیں جن کی موجودگی میں فلاحی معاشرے کا قیام نا ممکن ہو جاتا ہے۔ وہ قومیں جو مسلسل استحصالی نظام کی خوگر ہو جاتی ہیں اُن کے ووٹ یا رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہی عوام حکمرانوں یا حکمران خاندانوں کا محاسبہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔جن خطوں پر ایسے عوام اور حکمران ہوں انہیں نفسیاتی، مالی اور معاشی لحاظ سے کمزور کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ گریٹ گیم کے دونوں خطوں کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ مستند ہے مگر سیاسی اور نفسیاتی کمزوریوں نے گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کے لئے جو آسانیاں پید ا کی ہیں اُس کا تدارک ان خطوں کے عوام اور حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔
سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ عہد کے تحلیل ہونے کے بعد دونوں خطوں میں باجگزار حکمران اور غلام قومیں کوئی ایسا مربوط نظام حکومت وضع نہ کر سکیں جو مخالف اور برتر مادی قوتوں کا کسی بھی لحاظ سے مقابلہ کرنے کی سکت رکھتیں۔ ترک اور مغل سلاطین نے وقت کی قدر نہ کی اورنہ ہی بدلتے حالات کا تجزیہ کر سکے۔ فرسودہ نظام حکومت اور فلاحی معاشرے کے قیام کی ناکامی نے دو عظیم سلطنتوں کو چند سالوں کے اندر تحلیل کیا جس کا ڈھانچہ صدیوں تک قائم تو رہا مگر مضبوط نہ رہ سکا۔ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال دونوں میدان گریٹ گیم کے لئے کھل گے۔ ماضی کے کھلاڑی اہل مغرب، امریکہ، روس اور جاپان تھے جبکہ موجودہ دور میں روس کے ساتھ چین جبکہ مغرب اورا مریکہ کیساتھ بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کھڑے ہیں۔ سرد جنگ بھی اب اتنی سرد نہیں رہی۔ امریکہ اور مغرب اپنی معاشی اور سیاسی پالیسوں پر انحصار کر رہے ہیں اور پاکستان جیسی کمزور معیشتوں کی گردن پر پاؤں رکھ چکے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاستدان، معشیت دان اور منصوبہ ساز اہل مغرب اور امریکہ کے پاکستان دشمن منصوبے کے حامی ہیں۔ افغانستان کی دگردوں کیفیت بھی ہمارے معاشی اور معاشرتی زوال میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت بدلتے عالمی حالات کو سمجھنے میں ناکام ہے اور عسکری قیادت پر اندروانی اور بیرونی سیاسی قوتوں کا شدید دباؤ ہے۔ ہمارے دوست ملک ہماری ناکام اور غیر سنجیدہ پالیسوں کی وجہ سے نالاں ہیں اور کسی بھی وقت ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔”گریٹ گیم جاری ہے“ اور”امریکہ کے بعد“، لکھے مضامین کی بھی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ کچھ آوازیں اگرچہ مدھم ہیں مگر اندھیرے میں روشنی کی کرن بننے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ آواز اور الفاظ کی قوت برحق ہے اور دلوں پر اثر کرتی ہے۔۔(جاری ہے۔۔)