تاریخ کا مطالعہ ہمارے دین میں شامل ہے۔ قرآن کریم میں بار بار ذکر ہوا کہ پچھلی قومیں تم سے زیادہ زیرک ،عقلمند و دانا اور قوت کے لحاظ سے بر تر تھیں۔ اُن کو تباہی کی وجہ تکبر و غرور ، بد اعمالی ، جبر و ظلم ، جھوٹ و فریب اوردیگر معاشرتی برائیاں اور اللہ کے احکامات سے انحراف تھا۔ اُن کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔ انہوں نے قوانین بھی مرتب کر رکھے تھے اور آئین بھی موجود تھے جو خدا کے بجائے بادشاہ کی حاکمیت اور برتری پر مبنی تھے ۔ اُن قوانین میں خدا کا ذکر موجود تھامگر حکم صادر کرنیوالا خدا انسانی شکل میں بر تر خدا کے احکامات اپنی مرضی سے عوام الناس پر مسلط کرتا تھا۔ دنیا کا سارا کاروبادشاہ یا انسانی شکل میں موجود خدا کے پاس تھا جس کے بہت سے معاون خدا بھی تھے جنہیں موجودہ دو رمیں بیوروکریٹ کہا جاتا ہے۔
عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ چینی دانشور کنفیوشس ہی سول سروس کا بابا آدم ہے۔ کنفیوشش کا خیال تھا کہ بادشاہ کی غیر موجودگی میں یا پھر موت یا معزولی کی صورت میں ریاست کا انتظام متاثر ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ ساری ریاست میں جتنے لوگ ذہین اور مختلف علوم کے ماہر ہیں اُن کے درمیان مقابلے کا امتحان کروایا جائے اور ریاست کی ضرورت کے مطابق ذہین ترین افراد پر مشتمل ایک متبادل حکومت قائم کی جائے ۔ان افراد کو اُن کی تعلیمی قابلیت اوراہلیت کی بناء پر مختلف محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جائے جو سلطنت کے انتظامی امور احسن طریقے سے چلائیں۔
تاریخ کے تقابلی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی سات بڑی تہذبیں نہ صرف ہم عصر تھیں بلکہ کئی رشتوں سے ہم آہنگ بھی تھیں۔ مصری، بابلی، سو میر، یونانی، ایرانی ، ہندی، چینی اور کشمیر کی ناگ تہذیب کے ادوار کئی صدیوں پر محیط ہیں۔ اسی طرح قدیم دور میں ان تہذیبوں کے درمیان تجارتی تعلقات بھی قائم تھے۔ اُس دور کے نامور بادشاہوں میں اشنونا ، حمورابی ، نمرود ، فرعون اور بخت نصر کا نام آتا ہے۔ یونانی ریاستوں کے حکمران بھی تھے مگر وجہ شہرت اہل علم و دانش کے حصے میں آئی۔ فلپ اور سکند ربھی مشہور ہوئے مگر عظیم فتوحات کے باوجود یونانی حکمأ و فلاسفہ کا مقابلہ نہ کرسکے۔ ہندوستان میں آریائوں کی آمد سے پہلے بھی ایک تہذیبی دور تھا جسے جدید دور کے تاریخ دانوں نے توجہ کے لائق ہی نہ سمجھا ۔ اسی طرح ناگ تہذیب کو تہذیبوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا اور نہ ہی چینی تہذیب پر زیادہ بات کی جاتی ہے۔ یونانی فلاسفہ کے مقابلے میں چینی ، مصری ، ایرانی ، ہندی ا ور کھش تہذیبیں زیادہ پر اثر اور مقابلاتاً تعمیر و ترقی اور علم و عمل کے اعلیٰ درجے پر تھیں۔
تاریخ صرف چند واقعات ، حادثات اور ادوار کے ذکر کا نام نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ علم سیاسیات ہر علم کی ماں ہے مگر سچ یہ ہے کہ تاریخ ہر علم کی بنیاد اور ترقی و کامرانی کی سیڑھی ہے۔ آج کی جدید دنیا میں بھی ایسے خطے موجود ہیں جہاں تہذیب و تمدن کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اُن لوگوں کی اپنی تہذیب ، رسم و رواج اور تاریخ ہے۔ وہ نہنگ دھڑہنگ رہتے ہیں مگر اپنی تاریخ سے واقف ہیں۔ انہیں لندن ، پیرس ، نیو یارک یا دبئی جانے اورر ہنے کا کوئی شوق نہیں ۔ وہ جدید ٹیکنالوجی ، تہذیب و تمدن سے بخوبی واقف ہیں مگر اُسے اپنانے یا فائدہ حاصل کرنے کی ہر گز خواہش نہیں رکھتے ۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ وہ جدید دور کے انسان ، معاشرے ، ماحول ، تہذیب و تمدن سے دور رہنے میں ہی آفیت سمجھتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ آج کی دنیا گلوبل ویلج ہے ۔ ٹیکنالوجی نے ملکوں ، قوموں ، معاشروں اور افراد کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جن قوموں کو اس ٹیکنالوجی پر عبور حاصل ہے وہ کسی دوسری قوم کو اس سے مستفید ہونے کی ہر گز اجازت نہیں دیتیں ۔ بلکہ طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ بھرپور طریقے سے استحصالی بھی کر رہی ہیں۔نان کائنیٹک وار کے علاوہ ایسے حربے اور طریقے ایجا د کیے جارہے ہیں جو ساری دنیا پر چند ملکوں کی اجارہ داری قائم کرنے کے شیطانی ہتھکنڈے ہیں ۔ امریکہ جس ملک پر چاہے کسی بھی طرح کی پابندیاں عائد کر سکتا ہے اور جہاں چاہے جنگ مسلط کر نے کا حق رکھتا ہے۔ یورپ کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس امیر ملک ہوں یا کوئی سپر پاور ، امریکہ کسی بھی صورت میں ان کی اجارہ داری یا آزاد داخلہ و خارجہ اورتجارتی پالیسی کی اجازت نہیں دیتا ایک طرف توامریکہ انسانی حقوق ، شخصی آزادی اور اعلیٰ جمہوری روایات کا سب سے بڑا مبلغ ہے مگر اصلاً وہ کسی بھی ملک میں اپنی مرضی مسلط کرنے اور اُسے باجگزار بنانے کا حق رکھتا ہے۔
ہمارا قومی المیہ یہی ہے کہ ہمارا سیاسی ، معاشی ، معاشرتی حتیٰ کہ عدالتی نظام ملکی قاعدے وقانون کے مطابق نہیں چل رہا ۔ ہمارے پاس آئین کی کتاب تو ہے مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا ۔ دیکھا جائے تو اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد آئین کی اصل روح کو مسخ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر صوبہ مرکزی گریز قوتوں کی اجارہ داری میں چلا گیا ۔ صوبائی حکومتیں سپریم کورٹ جیسے اعلیٰ ترین ادارے کے احکامات پر سنی ان سنی کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے کرپشن اور لاقانیت کا رحجان بڑھ رہا ہے ۔ اعلیٰ سیاسی گھرانے قانون و آئین کی گرفت سے مبّرا پچھلے ادوار کے بادشوہوں کی طرح پاکستان کی زمین پر خدائی کے دعویدار ہیں۔ چونکہ ان گھرانوں نے ملکی خزانہ اور عوام کی جیبیں خالی کرکے اُن ملکوں میں دولت جمع کررکھی ہے جنہیں ایک آزاد وخود مختار ، معاشی اور سیاسی لحاظ سے مضبوط ایٹمی قوت سے لیس پاکستان ہر گز قبول نہیں ۔ ہماری اشرافیہ سیاسی کرشمہ ساز اور ہر ادارے میں بیٹھے چالیس عیار اور میڈیامالکان کے علاوہ دانشور کہلوانے والے 9مکار ملک میں بھگاڑ اور انتشار پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ کسی بھی ملک کے دانشور اُستاد اور علم عمرانیات کے ماہرین حکمران طبقے اور عوام کے درمیان ربط پیدا کرنے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو تاریخ سے اخذ کردہ نتائج کی روشنی میں ملکی نظام کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور عوام میں سیاسی اور علمی شعور بیدار کرتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ سیاستدان تاجرانہ ذہنیت کے حامل نودولیتے او رکرپٹ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن ہی کی خواہشات پر نوکر شاہی اور دیگر ادارے کام کرتے ہیں۔ ہمارے صحافتی اور علمی حلقے اکھنڈ بھارت کے نظریے کو پاکستان عوام کے دلوں اور دماغوں پر مسلط کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور اسلامی ، پاکستانی تاریخ و تمدن کی نفی کرنے کا بھرپور معاوضہ وصول کر رہے ہیں ۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے والا شخص پاکستان میں قومی سلامتی کا مشیر ہے اور مصر جیسے ملک کو دیوالیہ کرنے والا عالمی معاشی اداروں کا آزمودہ کار ایجنٹ سٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنر ہی نہیں بلکہ عالمی معاشی اداروں کی جانب سے مسلط کردہ حکمران ہے۔ ہماری پارلیمنٹ اور قومی اسمبلی نے اسے ملکی معیشت تباہ کرنے اور عوام کا خون نچوڑ کر عالمی معاشی او راستحصالی اداروں کو خوش کرنے کے اختیارات تفویض کیے ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ ڈوگروں نے کشمیری مسلمانوں پر چولہے ، چوکے اور چنگیر کا ٹیکس نافذ کیا تھا ۔ آج ہمارے وزیر خزانہ شوکت ترین نے ڈوگروں کو بھی مات دی اور ایسے ایسے ظالمانہ ٹیکس لگائے جن کا کوئی شمار ہی نہیں ۔ ایک طرف قوم سلامتی پالیسی کا ڈھنڈورا ہے تو دوسری جانب وزیراعطم پاکستان خود کہہ رہا ہے کہ ہماری قومی سلامتی قرض دینے والے اداروں اور اقوام کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔
یہ سب قرآنی تاریخ سے انحراف اور اسلامی تاریخ سے انکار کا نتیجہ ہے۔ ہمارے استاد ، دانشور ، سیاستدان ، معیشت دان ، طالب علم اور عوام تاریخ کے نام سے ہی نفرت کرتے ہیں اور قرآنی تاریخ کا نام تک سننے کو تیار نہیں ۔ میں نے اپنے مضمون کی ابتداء 1947ء کے واقعات ، حادثات اور قومی زوال کے ابتدائی دور سے کی اور اُن غلطیوں کی نشاندہی کی جس کی وجہ سے کرپشن ، سیاسی انتشار اور انتظامی اداروں پر زوال آیا۔ ملک دولخت ہوا اور ابتداء میں ہی کشمیر بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔
افغانستان نے پاکستان پر حملہ کیا اور فقیر آف ایپی کے علاوہ گاندھی ، عبدالصمد خان اچکزئی ، باچا خان اور جمعیت علمائے اسلام ہند کو باہم ملا کر آزاد پختونستان کا نہ صرف مطالبہ کیا بلکہ اقوام متحد ہ میں آزاد پختونستان کو تسلیم کرنے کی درخواست بھی دائر کر دی۔ افغانستان واحدملک تھا جس نے اقوا م متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔ ہمارے صاحبان علم و رائے بھارت کو پاکستان کا ازلی دشمن تو کہتے ہیں مگر کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ بھارت اور افغانستان کا پاکستان کے مسئلے پر ایک جیسا رویہ رہا ہے۔ چند ماہ پہلے افغانستان میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کی حکومت تھی۔ اِن سے پہلے حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ حکمران تھے۔ 1747میں افغانستان ایران سے الگ ہوگیا اور اُس سے پہلے ترک اور مغل صوبہ کابل وہرات کے حکمران تھے۔ تاریخ سے نابلد حکمران اور دانشور کسی بھی دور میں افغانوں کے تاریخی لحاظ سے غلط اور محض پاکستان دشمنی پر مبنی رویے کی نہ توو ضاحت کرتے ہیں اور نہ ہی مذمت کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ جب افغانستان کوئی ملک ہی نہ تھا تو اُس کی خیالی سرحد اٹک تک کیسے تھی۔ اگر ہم تاریخ کے پچھلے ادوار کا مطالعہ کریں تو کشمیر ی حکمران راجہ دیانند ، راجہ سندیمان ، للتہ دت ، اونتی ور من، سلطان شہاب الدین ، بڈھ شاہ اور شاہ میر کے ادوار میں بدخشاں اور کابل کشمیر میں شامل تھے۔
دور کی بات نہیں 1892ء میں چترال کا بادشاہ ناظم قتل ہو گیا تو اس کا کمسن چھوٹا بھائی امیر تخت نشین ہوا۔ انگریز حکومت نے لیفٹینٹ ینگ ہاسبنڈ کومہتر چترال کا گارڈین بنا کر بھیجا جس نے چترال کے تین اضلاع گوپس ، یٰسین اور دیا مر ڈوگروں اور تین اضلاع اسد آباد اور کنٹر کے شمال میں واقع چترال سے ملحق علاقہ جات بشمول واخان کے عارضی انتظام کے لئے کابل کے بادشاہ کے حوالے کر دیے۔ برٹش انڈین حکومت اور افغان حکمران کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ مہتر چترال کے بالغ ہونے تک ان اضلاع کا انتظام کابل اور کشمیر کے حکمرانوں کے پاس رہے گا اور بعد میں یہ اضلاع چترال کے منتظم کے حوالے کر دیے جائینگے ۔ ڈیورنڈ لائن پر بھی افغان حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہ تھاچونکہ واخان پٹی کے علاوہ تین انتہائی اہم سرحدی ضلعے افغانستان کی دسترس میں چلے گئے تھے۔ تاہم مہتر چترال کے حقوق کو بھی تسلیم کیا گیا مگر بعد میں حکومت پاکستان اس معاہدے پر نہ صرف خاموش رہی بلکہ افغانوں اور بھارت کی ریشہ دوانیوں پر بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھیں۔(جاری ہے۔۔۔ )