توقیر لون (ملٹن کینز )
برطانیہ کے محکمہ برائے قومی شماریات (او این ایس) نے مردم شماری 2021 کے ڈیٹا سیٹس میں ریاست جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے باشندوں کی جداگانہ شناخت بطور کشمیری نسلی گروپ اور مردم شماری ڈیٹا میں شمولیت کی باضابطہ تصدیق کر دی ہے۔ برٹش کشمیری آئیڈنٹٹی کمپئین کے سپوکس پرسن سردار آفتاب نے میڈیا کے نمائیندوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ برطانیہ میں کشمیری شناخت کا تسلیم کیا جانااور مردم شماری میں اندراج کشمیریوں کی بہت بڑی کامیابی ہے جو کہ برطانیہ میں مقیم دونوں اطراف کے کشمیریوں کی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اس اہم کامیابی پر وہ پوری کشمیری کمیونٹی کو مبارکباد دیتے ہوئے برٹش کشمیری کمپئن کمیٹی کے ممبر ارکان ڈاکٹر سرینا حسین، رانا شمع نزیر، ڈاکٹر شاہین شورہ، پروین خان، کونسلر علی عدالت، شمس رحمان، غلام حسین، کونسلر زوالفقار، عابد ہاشمی، انور ایوب راجہ ،عدیل خان، شفق حسین، لطیف حسین ، ادریس کھانڈے، نثار ولایت، اشفاق احمد ڈاکٹر کرامت اقبال و دیگر کے علاؤہ والنٹیرز میں ، ڈاکٹر نذیر گیلانی، ڈاکٹر آمنہ بچہ، ڈاکٹرشبینہ قیوم، کونسلر آفتاب، مہا نزیر،لیلا کشمیر، اظہر احمد، لیاقت لون ، خواجہ کبیر، واحد کاشر، جاوید اقبال، ارشاد ملک، طارق سرور، ڈاکٹر سبور، حاجی یاسین اور دیگر تمام رضاکاران کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ جن کی کاوشوں کی بدولت ہمیں اپنی کمپئین میں آج کامیابی ملی ہے۔
انھوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں ہر دس سال کے بعد مردم شماری ہوتی ہے اور اس دفعہ یہ 21مارچ2021 کو ہوئی جسمیں برطانیہ میں پہلی بار کشمیری شناخت کے اندراج سے جہاں انیسویں صدی سے لے کر آج تک ریاست جموں کشمیر کے مختلف خطوں سے آ کر یہاں آباد ہونے والے دس لاکھ سے زیادہ برطانوی شہریوں، آبادکاروں اور ان کی موجودہ اور مستقبل کی نسلوں کو نئی شناخت ملی ہے وہاں انھیں اپنے کلچر اورمثبت روایات کا تحفط ملنے کیساتھ ساتھ نسلی برابری کے قانون کے تحت کشمیری کمیونٹی کو سماجی انصاف اور مساویانہ حقوق حاصل ہوں گے اور مزید یہ کہ وہ اب اپنی اوراپنی آنے والی نسلوں کے لیے جموں کشمیر میں اپنی وراثتی پراپرٹی اور کاروبار پر اپنے حق ملکیت کا تحفظ ،اپنے خاندانی تعلقات اور رسم ورواج کے تحت خوشی اور غمی کے موقع پر فیملی ری یونین کے لیے ویزوں کے حصول، اور کشمیری کمیونٹی کی مخصوص مذہبی، ثقافتی اور ھیلتھ و سوشل کئیر کے ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کے بعد ورک ویزوں کے اجرأ کے لیے بننے والی نئی پالیسیوں میں کوٹے میں برابری کا حصے لینے کے لیے مردم شماری کے ڈیٹا کو بطور ثبوت استعمال کر سکیں گے ۔
مردم شماری میں برطانوی کشمیریوں کی جداگانہ شناخت سے انہیں اپنے قومی اور ریاستی تشخص کی بحالی کے لیے پر امن سیاسی، سماجی اور سفارتی جدوجہد میں شرکت اور بحثیت کشمیری عوامی سفارت کار کے برطانیہ اور یورپ میں راےٗ عامہ ہموار کرنے،اوربین الاقوامی سطح پر اپنی قوم کا مقدمہ خود لڑنے اور مستقبل میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں جموں کشمیر کے مستقبل کے فیصلہ کے لیے ہونے والی رائے شماری میں برطانیہ میں رہتے ہوے رائے دہی (ووٹ) کا ان کا پیدائیشی حق بھی محفوظ رہے گا۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ برطانیہ میں پیدا ہونے اور مستقل رہاؑش پزیر تمام ریاستی باشندے اپنے بچوں کے پیدائیشی (برتھ ) سرٹیفیکیٹ ، ڈرا ئیونگ لائیسنس اور پاسپورٹ بنواتے وقت اپنی یا اپنے والدین کی جائے پیدائیش جموں کشمیر یا پھر مقام و ضلع پیدائش مثلاٌ میرپور، پونچھ، جموں، سرینگر، بارہ مولا، لداخ، بلتستان یا گلگت لکھیں۔
انھوں نے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری کا ڈیٹا ایک ایسی مستند دستاویز ہوتی ہے جس کی بنیاد پر برطانوی حکومت اور مقامی کونسلیں مختلف علاقوں کے لیے آبادی کے تناسب کی بنیاد پر بجٹ مختص کرتی ہیں۔ اور اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ کس علاقے اور کس کمیونٹی کے لیے کونسی سہولتیں ضروری ہیں۔ خصوصاً جب کسی کمیونیٹی سروس کے لیے پالیسی سازی کی جاتی ہے یا پھر اس کے لیے بجٹ مختص یا اس میں کٹوتی کی جاتی ہے تو پھرمردم شماری کے ڈیٹا اور اس سروس کو استعمال کرنے والوں یا ضرورت مندوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ وہ سروس یا سہولت فراہم کی جائے یا کہ نہیں اور اگر مردم شماری کے ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئے کہ اس فیصلے کے کشمیری یا کسی بھی اور نسلی اقلیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے تو پھر حکومت اور مقامی کونسلیں قانون مساوات ۲۰۱۰ کے تحت اس بات کی پابند ہیں کہ وہ کشمیری کمیونٹی کے افراد کو ان منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔ یا اگر کسی شہر اورعلاقے میں کشمیری کمیونٹی کے افراد کے تعداد زیادہ ہے تو ان کی ضرورت کے مطابق سروسز فراہم کی جاہیں۔ انکا کہنا تھا کہ کشمیری شناخت کے اندراج نہ ہونے کے باعث برطانیہ میں کشمیری کمیونیٹی کی مساویانہ ترقی میں کئی رکاوٹیں حائل رہی ہیں، اور ان علاقوں میں جہاں وہ زیادہ تعداد میں آباد ہیں انہیں صحت، تعلیم ،ملازمیتوں اور کاروبارکی ترقی لیے کم حکومتی امداد ملتی رہی۔
ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں دس لاکھ سے زیادہ ریاست جموں کشمیرسے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں لیکن حکومتی ادارے یہ نہیں جانتے کیونکہ گزشتہ مردم شماری 2011 کے مطابقہماری تعداد صرف پچیس ہزار تین سو پینتیس تھی۔ کیونکہ ہم میں سے اکثر مردم شماری اور دیگر ایکویلیٹی ڈیٹا کے فارم بھرتے وقت اپنی درست کمیونٹی شناختکشمیری نہیں لکھتے تھے.
انکا مزید کہنا تھا کہ کشمیری شناخت کے اندراج کے بعد اب کشمیر کمیونیٹی بھی دیگر قومیتوں کے برابر مساویانہ بنیادوں پر ترقی کرسکے گی اور ہماری قومی اور ثقافتی شناخت کا تحفظ ہوگا۔ مردم شماری میں کشمیری شناخت کی بنیاد پر حکومت اور مقامی کونسلیں ہماری ضرورتوں کا حقیقی اعداد وشمار کی بنیاد پر تجزیہ اورتعین کر کے ہماری کمیونیٹی کے ہر فرد کی ترقی کے لیے بہتر منصوبہ بندی کر سکیں گی آخر میں انھوں نے کشمیری ڈائسپورہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ وہ انکے بہت شکر گزار ہیں کہ انھوں نے 2021 کی مردم شماری میں فعال شرکت کی اور اپنی قومی ، نسلی اور ثقافتی شناخت کی درستگی کرتے ہوئے اسے کشمیری لکھا۔