Tarjuman-e-Mashriq

کشمیر اداس ہے

ادیب ، صحافی اور قلم کار کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادب اور علم سے اوروں کی زندگیوں کو منور کرے . برصغیر پاک و ہند کا برطانیہ سے بڑا پرانا رابطہ اور رشتہ ہے اور اسی رشتے کی بنیاد پر جنگ عظیم دوئم کے بعد ہزاروں افراد نے برطانیہ کو اپنا دوسرا گھر بنایا ، ان نو آباد کاروں میں ایک بڑی تعداد مزدوروں اور تلاش معاش کے لیے سفر کرنے والے محنتی لوگوں کی تھی . جہاں یہ بڑی تعداد میں محنتی لوگ یہاں آ کر آباد ہوۓ وہیں سر زمین برطانیہ بہت سے قلم کاروں ،صحافیوں اور ماہرین علم و ادب کا بھی دوسرا گھر ٹھہرا . ان لوگوں کی موجودگی نے یہاں آباد بے شمار تارکین وطن کو شناخت دلوائی اور اپنے قلم سے انکا رابطہ اپنی جڑوں سے جوڑے رکھا .

کہتے ہیں ایک انقلاب اپنے اختتام پر دوسرے انقلاب کو جنم دیتا ہے ، ایسے ہی ایک دور کے مفکر دوسرے دور کے مفکرین کی سوچ کی نشوو نما کرتے ہیں اور شائد اسی لیے اور اسی وجہ سے ادب ہمیشہ اپنی نئی جہتوں کے ساتھ زندہ رہا اور سلسلہٴ علم و فکر ہر دور میں ایک نئی امنگ کے ساتھ ابھرا .
 

دس ، بارہ سال پہلے میری ملاقات سرینگر کے ایک صحافی اور دفاعی امور پر لکھنے والے ماہر قلم کار مرتضیٰ شبلی سے ہوئی ( آپ اس وقت لندن میں رہتے تھے اور ان سے میری ملاقات میرے ایک طویل مضمون "اسلامی جمہوریہ انگلستان ” کی اشاعت کے بعد ہوئی ، میں ان دنوں ایک مقامی ٹی وی اسٹیشن پہ صبح کا پروگرام پیش کرتا تھا اور شبلی صاحب سواس میں زیر تعلیم تھے ) ا نہوں نے ملاقات پر مجھے ایک کتاب تحفے میں دی ، کتاب کا نام میرے لیے بڑا انوکھا اور فکر انگیز تھا ( میں نے اس کتاب کا حوالہ پہلے کہیں پڑھا تھا ) . میرے ہاتھ میں ” کشمیر اداس ہے ” کا ایک نسخہ تھا جو محمود ہاشمی صاحب کی تصنیف تھی . میں نے کتاب پڑھی تو کتاب اور مصنف کا گرویدہ ہو گیا . تحقیق پر پتا چلا کہ صاحب کتاب برطانیہ میں ہی موجود ہیں . ایک اور صحافی دوست سے جو ان دنوں روزنامہ جنگ سے کام چھوڑ کر میرے ساتھ ٹی وی پر کام کرنے آئے تھے جناب ہاشمی صاحب کا ٹیلی فون نمبر لیا اور اس طرح محمود ہاشمی صاحب سے بات چیت کا آغاز ہوا . میں نے محمود ہاشمی صاحب کا تذکرہ بہت سے صحافی حلقوں میں بھی سن رکھا تھا اور ایک عرصے سے "کشمیر اداس ہے” کو پڑھنے کا خواہشمند تھا ، اب شبلی صاحب سے ملنے والے تحفے نے یہ خواہش تو پوری کر دی تھی مگر ہاشمی صاحب سے ملاقات ابھی بھی باقی تھی .٢٠ اگست ١٩٢٠ کو مادر وطن کشمیر جنت نظیر کے ایک خاندان میں ایک بچے نے جنم لیا جو آگے چل کے قدرت اللہ شہاب ، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کے ہم عصروں میں شامل ہوا . اس زمانے میں کشمیر سے لوگ روزگار کی تلاش میں ہجرت کر کے دور افتادہ علاقوں کا سفر کرتے لہذا مستونگ ( بلوچستان ) ریاست قلات میں خان آف قلات کے ایک قابل ویٹنری ڈاکٹر محمد ہاشم صاحب نے بھی ایسا کیا اور آزاد کشمیر سے مستونگ میں جا آباد ہوۓ . یہیں اس ہونہار بچے کا جنم ہوا کہ جو آگے چل کے ایک نامور ادیب بنا .یہ کوئی اور نہیں بلکہ” کشمیر اداس ہے "کے مصنف محمود ہاشمی صاحب کی زندگی کا آغاز تھا . بچپن سے جوانی تک کی داستان کیسی ہے اس کے احوال تو میرے ریکارڈ میں نہیں مگر جب میری ملاقات محمود ہاشمی صاحب سے ہوئی تو بات کا آغاز وہیں سے ہوا جہاں سے کشمیریوں کے وطن کشمیر کے دو لخت ہونے کی داستان شروع ہوتی ہے ہاشمی صاحب فرماتے ہیں ” ١٥ اگست ١٩٤٧ کی صبح میں نے سرینگر میں جب آنکھ کھولی تو عجیب مناظر کا مشاہدہ کیا”.

ہاشمی صاحب تاریخ دان ہونے کے ساتھ ساتھ آغاز پاکستان سے ہی ریڈیو اور اخبارات کے ساتھ منسلک رہے . مدت سے مجھے انتظار تھا کہ ہاشمی صاحب سے ملا جائے اور کچھ ایسے سوالات پوچھے جائیں جن کا تعلق مجھ سے ہے . میں چونکہ صحافتی دنیا میں ایک طالب علم ہوں اس لیے یہ بات جاننا ضروری تھا کہ کشمیر کیوں اداس ہے . میرے دور کے قلم کاروں اور میرے بعد کی نسلوں کو شائد کشمیر اس لیے اداس لگے کہ کشمیر کے نام پر بہت سے سیاسی یتیم پلے اور کشمیر کی تختی کو گلے میں لٹکائے بہت سے اپنوں نے اسے ایسے رسوا کیا اور جگہ جگہ اسے ایسے بیچا کہ غیروں کی چیرہ دستیاں بھی یاد نہیں رہیں . کشمیر اداس ہے …….. بہت اداس …… اسقدر کہ اس کی اداسی کا سبب سمجھ نہیں آ پا رہا .

جب میں نے محمود ہاشمی صاحب سے ملاقات کا منصوبہ بنایا تو تب میں لندن میں رہتا تھا اور محمود صاحب برمنگھم میں تھے . کچھ عرصہ ٹیلیفون پر بات ہوتی رہی مگر پھر ایک دن میرا موبائل فون گم ہو گیا اور محمود صاحب کا نمبر بھی کھو گیا . میں ٹیکنالوجی سے اس قدر واقف نہیں تھا اور مجھے یہ علم نہیں تھا کہ فون گم ہونے کی صورت میں نمبر فون کمپنی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں . ایک روز کسی نے یہ طریقہ بھی سکھا دیا . محمود ہاشمی صاحب کا نمبر بھی ان گمشدہ نمبروں میں شامل تھا ، جیسے ہی نمبر دستیاب ہوا میں نے ملاقات کے لیے وقت لیا . یہ موسم گرما کا ایک روشن دن تھا. نیچے کی سطور میں اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت کا احوال درج ہے امید کرتا ہوں میری طرح آپ بھی ان کی شخصیت سے متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکیں گے .
 

برمنگھم برطانیہ کا ایک بڑا شہر ہے ، یہاں ہزاروں کی تعداد میں آزاد کشمیر اور پاکستان کے مختلف حصوں سے آئے ہوۓ تارکین وطن آباد ہیں . ان بے شمار یاران وطن کو علم اور ادب سے روشناس کروانے والی شخصیت سے ملاقات میرے لیے ایک اعزاز کی بات تھی لہذا طے شدہ وقت پر میں ہاشمی صاحب کے پتے پر پہنچا . طویل عمری کے باوجود ایک چوکس دید بان کی طرح ہاشمی صاحب میرے منتظر تھے . بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے میں نے محمود صاحب سے اجازت مانگی کہ انکی باتوں کو ٹیپ کر لیا جائے تو بولے ” بات چیت کرو ، ٹیپ کر کے کیا کرو گے ” . یہ گفتگو ہاشمی صاحب کی رضامندی سے تھوڑی ٹیپ پر بھی موجود ہے مگر اس کا بیشتر حصہ غیر رسمی بات چیت پر مبنی ہے .میں نے پہلا سوال آپکی مشہور کتاب کے نام کے حوالے سے کیا . میں نے پوچھا ” کیا کشمیر اداس ہے ؟”
ہاشمی صاحب نے میری جانب دیکھتے ہوۓ فرمایا ” میرے خیال سے کشمیر جتنا آج اداس ہے پہلے کبھی نہ تھا – پہلے تو تقسیم کا مسلہ تھا مگر اب تقسیم در تقسیم ایک المیہ ہے ، کشمیر کا ایک حصہ بھارتی فوجوں کی موجودگی سے اداس ہے اور دوسرا حصہ خود پسند اور خلفشار کا شکار نابلد سیاسی کارندوں کی چیرہ دستیوں پہ رو رہا ہے ".میں نے پوچھا کہ اگر کشمیر اس قدر اداس ہے تو ایک بڑی تعداد میں موجود آزادکشمیر کے تارکین وطن اس مسلے کے حل کے لیے کیوں کچھ نہ کر پائے ؟ ہاشمی صاحب بولے ” یہاں برطانیہ میں موجود کشمیریوں نے ہمیشہ چھوٹے چھوٹے گرو ہوں میں کام کیا کبھی ایک تنظیم نہ بن پائے ، یہ کبھی دنیا کو یہ نہیں بتا پائے کہ ان کا اصل مسئلہ کیا ہے ، دنیا کا بھی اپنا ایک مسئلہ ہے ،دنیا ہمارے قابو میں نہیں آتی .آج جب میں پرانے کاغذات کو دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ ماضی سے حال میں قوم کو ہمیشہ نمائندوں اور قابل سفیروں کی ضرورت رہتی ہے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے عوامی سوچوں کا استحصال مدت سے جاری ہے لہذا یہ کہنا کہ کشمیر کی اداسی کو دور کرنے کے لیے کام ہوا ہے تو یہ غلط ہوگا ".ہاشمی صاحب نے مزید فرمایا کہ ” میں نے ایک مدت قلم سے محبت کی ہے ، اردو زبان کا قائدہ لکھا اور برطانیہ سے ایک اخبار نکالا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ کشمیری اپنی قومی ورثے کی محفوظ نہ کر پائے ، اس کی وجہ سے آغاز سے ہی کشمیری قوم نہ بن پائے ، ایک گروہ بن گیا جو آپس میں الجھتا رہتا ہے ".ادبی سفر کے آغاز کے حوالے سے جب میں نے سوال پوچھا تو بولے ” ہمیں معلوم نہیں کہ ہماری منزل کیا ہے ، لوگ مدت سے سفر میں ہیں اور اس سفر میں وہ بہت کچھ سیکھتے اور سمجھتے ہیں ، میں بھی اس سفر پہ نکلا اور ١٩٥٣ میں پہلی بار برطانیہ آیا. بہت سے تجربات میری زندگی کا حصہ بنے جس میں سب سے بڑا تجربہ وہ دور تھا جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور میں نے ” کشمیر اداس ہے” لکھنا شروع کی ، اللہ سے دعائیں مانگیں کے اس کتاب کی تکمیل ہو سکے ، یہ کتاب چھپی اور میری پہچان بن گئی ، مگر اس سب میں میرے لیے اہم چیز کچھ ایسی دوستوں کا ساتھ اور ہم عصری ہے جو تاحیات میرے ساتھ رہے گی ان میں قدرت اللہ شہاب اور اشفاق احمد کے نام سر فہرست ہیں ، جبکہ ممتاز مفتی صاحب میرے استاد تھے لہذا میرا ادبی سفر بڑا شاندار گزرا ".ایک حوالہ دیتے ہوۓ ہاشمی صاحب نے فرمایا ” ایک مرتبہ قدرت اللہ شہاب صاحب نے ہالینڈ سے مجھے ایک رقہ لکھا جسمیں انہوں نے بھی کچھ ایسی ہی باتیں کیں تھیں جیسی آپ کر رہے ہیں” میرے سوالات روحانیت کے حوالے سے تھے .١٩٤٧ کے تناظر میں بات چیت مزید آگے بڑھی تو میں نے پاکستان اور اس کے مسائل کے حوالے سے پوچھا تو بولے ” قوموں کا ایک روحانی وجود ہوتا ہے اور جو قومیں اپنے روحانی وجود سے دور رہتی ہیں وہ مصیبت کا شکار ہو جاتی ہیں ، میں روحانیت اور روحانی معاملات پر زیادہ کچھ نہیں بولوں گا کیونکہ یہ اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب کا سبجیکٹ تھا اور انہوں نے اس پر بہت اچھا لکھا مگر میرے خیال سے قوم کے معاملات قوم کے روحانی وجود پر انحصار کرتے ہیں ".
 

بات چیت جاری تھی کہ آپ نے مجھے چند خطوط مجھے دکھائے جو ایک پرانے صندوق میں محفوظ تھے ، چند پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوۓ بولے کہ ابھی کل کی بات لگتی ہے میں آزاد کشمیر حکومت کے لیے کام کرتا تھا وہیں میری قدرت اللہ شہاب صاحب سے ملاقات ہوئی اور پھر یہ ملاقات دوستی میں بدل گئی . میں نے پوچھا کہ کیا آج بھی ماضی کے ان عظیم صوفی منش لکھاریوں کی طرح ایسے لوگ پیدا ہو سکتے ہیں جو سوچوں میں انقلاب پیدا کر سکیں ؟ بولے ” کیوں نہیں ہو سکتے ، بلکہ آج تو بہت بہتر انداز میں ادب، علم اور فکر پہ کام ہو رہا ہے . ہر دور میں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں آج بھی لوگوں میں گھمبھیر سوچ اور فکر ہے ، اگر یہ سوچا جائے کہ ہمارا دور بہتر تھا تو غلط ہو گا . آج کے دور کا لکھاری قلم کی کمان رکھتا ہے . ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ وہ قلم سے انقلاب لا سکتا ہے ، میرے خیال سے ایسا کرنے کے لیے والٹر ( سر والٹر سکاٹ ) جیسا قلم کار بننا ضروری ہے میں آج بھی اخبار پڑھتا ہوں اور میں سوچتا ہوں کہ آج کا قلم کار با خبر ہے مگر نہ جانے کیوں کالم نویس اوروں کی سوچ لوگوں تک پہنچا رہا ہے اخبار اور خبر ہر دور میں نظریہ ضرورت کے تحت زمانے میں ابھرے ، ہر شخص جو لکھنے والا ہے اسے اپنی تحریر پہ یقین ہونا چاہیے ".ممتاز مفتی صاحب کے بارے میں میں نے مزید پوچھا تو بولے ” میں ممتاز مفتی صاحب کا طالب علم ہوں ، گوجرہ (لائل پور ) میں آپ انگریزی کے استاد تھے اور میں ان سے ذاتی طور پر متاثر تھا ". مزید بولے ” مفتی صاحب بڑے سخت استاد تھے مگر شخصیت میں بڑے با کمال تھے ” .

میں نے گفتگو کو برطانیہ میں موجود تارکین وطن کی طرف موڑا تو بولے ” ١٩٦١ میں عنایت اللہ صاحب جو میرے ایک دوست تھے ،کوہستان اخبار نکالتے تھے . انہوں نے میری مدد کی اور میں نے برطانیہ سے ” مشرق ” نامی ایک پرچہ نکالا . مقصد نظریہ ضرورت تھا تاکہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے اور میں نے محسوس کیا کہ لوگوں نے اسے بہت سراہا . میں نے بڑی محنت سے اس کا اجرا کیا اور تارکین وطن کو ادبی اور فکری خیال گاہ مہیا کی . میں محسوس کرتا ہوں کہ لوگوں کے خیالات اور خاص کر آزاد کشمیر کے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ، لوگوں نے سوائے آزاد کشمیر واپس پیسے بھجوانے کے کوئی ایسا بڑا کام نہیں کیا کہ جس پر وہ ناز کر سکیں ، کچھ قومیں بد نصیب ہوتی ہیں وہ خود کے معاملات میں کھوئی رہتی ہیں اس لیے میرے خیال میں جو ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا پھر بھی تارکین وطن کی موجودگی سے کافی سارے اور پہلو بھی ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے اور وہ مثبت بھی ہیں .”

یہ غیر رسمی گفتگو تھوڑی بے تکلف ہوئی تو میں نے پوچھا کہ اس سب کے دوران کیا ہاشمی صاحب کو کوئی ایسی شخصیت بھی ملی جسے ان کے پڑھنے والے نہیں جانتے اور وہ اسے اپنے کے دل کے قریب مانتےہوں . ہاشمی صاحب مسکرائے اور بولے ” چلو آج میں ایک بات آپ سے بانٹتا ہوں ، ایک دور تھا ، میں جوان تھا اور سرینگر میں تھا . میری ملاقات ایک خاتون سے ہوئی ، ان کا نام امتیاز تھا . ملاقاتیں مزید ہوئیں تو مجھے لگا کہ یہ خاتون میرے اندر کے لکھاری کو نقصان پہنچا سکتی ہیں . میں نے اس خدشے کا اظہار اپنے ایک دوست سے کیا تو وہ بولے تم اس خاتون سے محبت کر لو زندگی آسان ہو جائے گی لہذا ایسا ہی ہوا ، یہ جان پہچان رفاقت میں بدل گئی پھر لمبا عرصہ چلی . یہ ١٩٤٥ کی بات ہے اور اب تقریبا دس پندرہ برس پہلے ان سے میری ملاقات ہوئی ، وہ زندگی کا بہترین دور تھا اور میرے دل کے بہت پاس ہے ، کتاب کشمیر اداس ہے بھی انہی کے نام ہے ".

میں اس گفتگو اور ہاشمی صاحب کی باتوں میں کھویا تھا ہوا کہ ہاشمی صاحب کے آرام کا وقت ہو گیا ، ضعیف العمری کی وجہ سے زیادہ دیر ان کے لیے بیٹھنا ممکن نہ تھا لہذا انہوں نے بستر پر دراز ہوتے ہوۓ ایک شعر سنایا اور ہم نے گفتگو ختم کی ، آپ نے فرمایا

سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ

ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں

یہ ہے احوال ایک عظیم مصنف سے ملاقات کا ، چونکہ یہ ایک غیر رسمی انٹرویو تھا اس لیے میں نے تاریخی حوالے اور تاریخی واقعات نہ تو جاننے کی کوشش کی اور نہ ہی ہاشمی صاحب نے تذکرہ کیا . میرا مقصد آپ سے مل کر آپکی ذات کو سمجھنا تھا . آج کے دور کے قلم کار بیشک اچھا لکھتے ہیں مگر جب تک ہم اردو ادب کے ان اساتذہ کا نیاز حاصل نہیں کریں گے ہمارے لیے ادب کے مختلف ادوار کا جائزہ لینا مشکل ہے . سوچ اور فکر کا ہونا بہت لازم ہے ، جیسا کہ ہاشمی صاحب نے قوم کے روحانی وجود کی بات کی ، میرے خیال سے اس کا پیدا ہونا ضروری ہے ورنہ یہ گلہ غلط نہ ہوگا

انسانوں کا عجائب خانہ ہے تو رضا دلچسپ مقام
جس کو دیکھو جس سے بولو سمجھے کم سمجھائے بہت

میں نے یہ انٹرویو ٢٠٠٩ میں لیا تھا اور آج بھی لگتا ہے کہ قوم کے روحانی وجود کو سمجھنے والے ذہن یا تو ختم ہو چکے ہیں یا ان ذہنوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے . کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان اور تمام امت مسلمہ آج اداس ہے کیونکہ وہ اپنے روحانی وجود سے بہت دور ہے اور اس میں اب اپنی پہچان منوانے کا جذبہ ختم ہو گیا ہے . آج مسلمان ، پاکستان اور اسلام وہ پہچان ہے کہ جسے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ ہماری اپنی بد کرداری اور دین سے دوری ہے . اسی جانب ایک اشارہ کلام اقبال میں ملتا ہے ، حضرت علامہ اقبال نے فرمایا

ہند میں حکمت دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذت کردار ، نہ افکار عمیق
حلقہ شوق میں وہ جرأت اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوال تحقیق !

 ( یہ انٹرویو  2013میں ریکارڈ کیا گیا تھا )

انٹرویو کا کچھ حصہ اس وڈیو میں سنا جا سکتا ہے –

 

Exit mobile version