Tarjuman-e-Mashriq

کوئی تو ہو

اکثر دوستوں کی محفلوں میں ماضی کو یاد کیا جاتا ہے اور ان گزرے لمحات کو جنھیں ہم نے ان مادی بندشوں سے باہر گزارا اور دیکھا ہوتا ہے . میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بہترین دوست وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ جب آپ بیٹھیں تو گفتگو کا آغاز وہیں سے ہو جہاں وہ گفتگو رکی تھی ، اس میں کتنے وقت کاتعطل آیا یہ بے معنی ہو جاتا ہے  ۔

پچھلے دنوں بچپن کے دوست ڈاکٹر فیض الرحمان (فیضی) سے تفصیلاً گپ شپ ہوئی, دوستوں سے دل کھول کر گفتگو کرنے   کے موضوع پر فیضی نے (حسبِ عادت) وضاحت کے طور پر "خواجہ غلام فرید”  کی ایک کافی پڑھی

کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مِلدا

اسی روز سے  خواجہ غلام فرید کے یہ الفاظ میرے ذہن میں گونج رہے تھے اور یہ الفاظ  ایک نظم کی وجہ بنے  جو آپ سب کی بصارتوں کی نذر ہے

کوئی تو ہو….

جو ان کہے لفظوں کی زباں سمجھے
میں نہ بھی سناؤں وہ ہر داستاں سمجھے
پلکوں کی نمی کے اسباب بنا پوچھے
آنکھیں کیوں ہیں میری ویران سمجھے

کوئی تو ہو….

جو لب بام سرِشام میرا انتظار کرے
میرے ہر وعدے ہر بات کا اعتبار کرے
شبِ وصل گزر جانے پہ ہو جائے پریشاں
وقتِ رخصت ٹھہر جانے پہ اسرار کرے

کوئی تو ہو……

جس کے پہلو میں دھڑکن کو قرار آئے
ہنستی آنکھوں کو اِک دوجے پہ پیار آئے
جیسے سوکھے کھیت پہ بادل اُمڈ آئے
کچھ ایسی ہی میرے دل پہ بہار آئے

کوئی تو ہو……

جس کو سوچوں تو اس کی خوشبو آئے
سجھائی نہ دے کچھ وہ جب روبرو آئے
خود کو بھولوں اور اس میں کھو جاؤں
میرے سامنے جب بھی وہ خوبرو آئے

کوئی تو ہو….

جسکی آنکھوں میں مجھ بن نمی سی رہے
میری فرقت میں میری کمی سی رہے
کب اسکی چوکھٹ پہ دوں گا میں دستک
نگاہ اسکی رستوں پہ جمی سی رہے

کوئی تو ہو……

جو رات بھر میرے سنگ ستارے دیکھے
رتجگوں میں بھی سپنے پیارے دیکھے
رات کٹ جائے شوقِ جنوں ہو نہ کم
پو پھوٹے تو کِرنوں کے نظارے دیکھے

کوئی تو ہو….

اسکی آواز کانوں میں رس گھول دے
جو کچھ میں سوچوں وہ وہی بول دے
میں مقید ہوں اپنے ہی اندر محمود
اپنی آغوش میں لے کر قفل کھول دے

کوئی تو ہو…..

 

Exit mobile version