Tarjuman-e-Mashriq

ایبٹ آباد میں منڈیاں کےسٹاپ پراتریں اورجناح آباد کی بھول بھلیوں کی سی گلیوں سےدامن بچاتےچلتےجائیں تو COMSATS یونیورسٹی کاایبٹ آبادکیمپس آجاتاہے۔ ایک زمانےمیں یہاں پی ایم اےکی تھرڈپاک بٹالین ہواکرتی تھی۔ یارلوگ اسےجُراسک پارک کہا کرتے تھے۔
اورصاحب ٹھیک ہی توکہتےتھے,کاکول اکیڈمی کی نئی نکور بلڈنگ اورفرسٹ اورسکینڈ پاک کےکیڈٹس کےالیکٹرک ہیٹراورگیزرشاورسےآراستہ رہائشی بلاکس سےاگرآپ دومیل کافاصلہ طےکرکےتھرڈپاک آتےتوچودہ طبق روشن ہوجاتے
یہ علاقہ ٹوبےکیمپ کہلاتاتھاجہاں گوروں کےزمانے کی انہی کےمزاج سےملتی جلتی بارکیں تھیں.
اٹیچ باتھ روم کی عیاشی کوایک حقارت سےٹھکراتے کیمونٹی واش رومز، ٹھٹھرتی سردیوں میں ایک آتش گیرکوئلےکےگولوں کابلغمی دھواں اُگلتےکوئٹہ سٹووزجن کےزہریلے دھویں میں پھولتی سانسوں سےدومیل بھاگتےدائمی کھانسی کھانستےکیڈٹس اورگیزرکی جگہ وہ فوج کاٹریڈمارک شکایتی فقرہ’سر! ہاٹ واٹرازناٹ کمنگ‘
میرپورکےپہاڑوں کےدامن میں جن کےدولینڈمارکس میں ایک مشہورزمانہ پنجابی ہیروئن کا عضوِ کثیف(مراداس سےگوڈاہے) اوردوسرا ایک اوربھلی سی نازک اندام ہیروئن کا عضوِ لطیف(صاحب یہاں ‘پھول اپنی قبائیں کترکےدیکھتےہیں’ والامضمون ہے) شامل تھے، کےسائے میں پروان چڑھتی تھرڈپاک کےزندگی کرنےکےاپنے اصول تھے.
اس بات پرمن حیث البٹالین اتفاق تھاکہ تھرڈ پاک کےڈرل سٹاف زیادہ کرخت اورپیٹسواورپی ٹی سٹاف پسینہ نچوڑحدتک سفاک تھے۔
صاحب اکیڈیمی کے مین گیٹ پرتوایک قرآنی آیت اللہ کی نصرت اور فتح کی بشارت دیتی اورحوصلہ بڑھاتی تھی۔ تھرڈ پاک نےمعاملات سیدھے زورِبازوکےحوالےکردیئےتھے۔
تھرڈ پاک کے میں گیٹ پرآویزاں آیت تھی ’لیس للانسان الا ما سعیٰ‘ جسکارائج الوقت مفہوم یہ تھاکہ آپےکرنااےجوکجھ وی کرنااےآگے بٹالین روڈ پر جلی حروف میں ایک بورڈ آویزاں تھا
‘When the going gets tough, the tough gets going’
صاحبواس جراسک پارک میں زندگی بسر  کرنا ایک جاں گُسل ’کوشش‘ تھی،اس جاں گسل ’کوشش‘ سے اکیلےبندےکا گزرنہیں
ایسےمیں آپ چوبیس پچیس درویشوں کی اس ٹولی کو شدت سےتھام لیتےہیں جسےفوجی اصطلاح میں پلاٹون کہتےہیں
ہماری پلاٹون کو باندھ لینےوالی کنجی اظہرتھا، مزنگ کا رہنےوالا یارباش کشادہ دل لاہوریاجس کےچہرےپرایک شتونگڑی شگفتہ مسکراہٹ کھِلی رہتی تھی جسےدیکھ کر ہم سب جی اٹھتےتھے.
کتنے ہی صبرآزما لمحوں اورآزمائشوں میں سےہم اظہرکےشگوفوں اورچٹکلوں کےصدقےہنستےکھیلتے گزر گئے.
شیروان کےکوہ گراں سےپارمنگل نالےکی جان سےگزرجانےوالی مشقت ہو یا سری کوٹ کی گھاٹیوں میں جسم وذہن کوجھنجھوڑتےبےخودہوتےشب وروز تربیلاکےمتروک ریلوےٹریک کےپشتوں پرٹمٹماتےتاروں کی شست باندھےلامتناہی راہوں کےکھوجی ہوں یا غازی کی گھاٹیوں میں نعرۂ تکبیرکی دلخراش صداؤں میں ہلّہ بولتےجانباز دن بھر کی ٹوٹتی تھکن اورلاچارکردینےوالی مشقت کی باقیات سمیٹےجب ہم تاروں بھری چھت کےنیچےلیٹتےتو ہزارہ کےپربتوں کی بازگشت میں مزنگ کی ایک رس بھری کوک گونجا کرتی
دوپترشہتوتاں دے
بھاٹی دیاں تنگ گلیاں
موہڈےوّجن معشوقاں دے
اور ہم سوچتےاگر اظہرنہ ہوتا تو اکیڈیمی میں ہمارا کیا حشرہوتا!پاسنگ آؤٹ کی سرخ سیڑھیاں چڑھتی اس ماتمی دھن میں کہ
اتنے دن ساتھ تھے
آج رخصت ہوئے
دوستو بہ امانِ خدا
ہم نے سب کے ساتھ اظہرکوبھی خداکی امان میں دیاتھا ، مگراس نے اپنے سادہ دل ہیرے بندے کو ایک اور سعادت کے لیے چن لیا تھا.اظہروزیرستان میں لڑتےہوئےشہید ہوگیا، یہ خبر کاکول میں سنی جب میں وہاں پلاٹون کمانڈر تھا.
میں لاہوراس کےجنازےمیں شریک نہ ہوسکا اور رفتہ رفتہ اسکی یاد دعا کےلیےاٹھے ہاتھوں تک محدود ہوکےرہ گئی.
بہت بعد ایک کورس گیٹ ٹو گیدر میں معلوم ہوا کہ ہم نےاپنا لعل میانی صاحب کی مٹی میں گنوادیا.فوج سے ریٹائرمنٹ لے لینے کے بعد میں اسلام آباد میں ایک نجی کمپنی کی ملازمت میں تھاجب ایک رات اظہرخواب میں آیا.وہ شکوہ کناں تھاکہ تم جو میانی صاحب کی خاک چھانتے رہے ہو مجھ سے ملنے ایک دفعہ بھی نہیں آئے!
بات کچھ دل میں کھب سی گئی،اپنےبہت پیارےدوست سجاد حیدرکو ساتھ لیا اور ہفتےکی شام لاہورکی راہ لی .آدھی رات ادھرآدھی ادھرکورٹروپس میس کےایک بی او کیو کا تالہ کھلواکررات گزاری کا حیلہ کیا اور صبح ہی صبح میانی صاحب کی راہ لی.نیت سچی اورجذبہ صادق تھا،لگ بھگ ڈیڑھ دوگھنٹےکی تلاش بسیارہمیں اظہرکےوالد صاحب سے ملاقات ہو گئی ،جواں مرگ بیٹے کا دکھ سینے میں دبائے اس بوڑھے باپ نے خندہ پیشانی سے ہمارااستقبال کیا
میانی صاحب کی جنازہ گاہ سے تھوڑاہٹ کر ایک گوشے میں اظہرسورہا ہے ، وہ زندہ ہے مگر ہمیں اس کا شعورنہیں
کچھ دیر اظہرکے ساتھ اکیلے وقت گزارا ، کچھ دعا درود کچھ پرانی باتیں اور پھر اٹھ آیا
واپسی میں اظہرکے چھوٹے بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ ہاتھ ملاتے ہوئے مسکرایا تواس مسکراہٹ میں ہو بہو اظہرکی جھلک تھی .میں ایک لمحے کو ٹھٹھکا ,یکبارگی خیال آیا اظہراب ہم میں نہیں ہے ، خدا معلوم ہم پلاٹون میٹس کا کیا حشر ہو.
Exit mobile version