والد صاحب نے ٹیپ ریکارڈر سے پہلے ہمیں ریڈیو بھیجا جس میں 555سیل ڈلتے تھے اسی سے ریڈیو پاکستان اور ریڈیو جموں اور آل انڈیا ریڈیو رات کو سنتے تھے۔یہ ریڈیو پاکستان کی بدولت ممکن ہوا کہ بچپن میں ہمیں ریڈیوملتان پر سرائیکی زبان سننے کو ملی۔ریڈیو ملتان کی آواز ہمارے ہاں رات کو واضع آتی تھی ریڈیو اسلام آباد سے خبریں سننے کے بعد میزبان کی گفتگو اور سرائکی نغمے سردیوں میں چولہے گرد جمع ہوکر سنے جاتے تھے۔سرائکی زبان میٹھی زبا ن ہے یہ ہم نے ریڈیو سے سنا تھا اور جب میرا داخلہ ملتان یونیورسی میں ہوا تو اس کا ذائقہ بھی چکھا۔
آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی بی اے بی ایس سی کے نتائج اس وقت دیاکرتی تھی جب پاکستان کی یونیورسٹیوں کے داخلوں کی تاریخ ختم ہو جاتی تھی اس دوران چاہے ایک سال کا عرصہ گزر جائے۔نتائج کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا کب آئیں گے لہذا میں نے NIMLجو اس وقت NUMLینویورسٹی اسلام آباد ہے میں Advance Diploma in Englishمیں داخلہ لے لیا AJK یونیورسٹی کی نتائج لیٹ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس میں داخلہ کیلئے طلباء و طالبات کی دلچسپی کم تھی۔اس کا اندازاہ مجھے خود اس وقت ہوا جب میں پہلی بار مظفرآاد میں قائم اس یونیورسٹی میں گیا۔1999میں یہ یونیورسٹی سرکاری کوارٹروں میں قائم تھی۔میں جب یونیورسٹی کے گیٹ سے داخل ہوا تو مجھے ایک شخص کی کہی بات یاد آ گئی ”جب ہم مظفرآباد ینورسٹی گئے تو آدھی بس اندر تھی اور آدھی باہر یونیورسٹی ختم ہوگئی۔“میں سخت مایوس ہوا اتفاقاََمیرا ایک اور شخص کے ساتھ نامزدگی بورڈ جانا ہوا وہاں لگی فہرست میں اپنا نام جب ملتان بہاؤالدین زکریا کیلئے دیکھا تو وہاں جانے کی ٹھان لی۔رات کو میں امین چودہری کے پاس میرپور میں ٹھہرا اس سے جب تذکرہ کیا توکہنے لگا نانگی اڈے سے اب تو ملتان کیلئے بس روزانہ جاتی ہے فکر کس بات کی ہے شام کو اس نے مجھے بس پر بٹھاتے ہوئے کہا راستے میں جو بھی کوئی چیز دے کھا لینا تمہارے پاس لٹنے کیلئے ہے ہی کیا۔
صبح ملتان پہنچ کریونیورسٹی دیکھی تو دل کیا بس یہی ہے وہ جگہ جس کی تلاش تھی پہلے دن تعارف کے دوران جب میں نے بتایا کوٹلی آزاد کشمیر سے ہوں تو راؤ اعجاز نے جھٹ سے بولا کشمیری بھائی آپ کو راستے میں کسی یونیورسٹی نہیں روکا۔یہیں پرمعروف صحافی اور مصنف امتیاز بٹ سے پہلے دن ملاقات ہوئی اس نے داخلہ سے لے کر رہائش تک سب انتظا م کر دیا۔اس شخص میں کوئی ناز نخرہ نہیں تھا اپنے بھائی کی طرح اس نے میری رہنمائی کی۔کلاسز جب شروع ہوئیں تو ایک سحر انگیزوقت آغاز ہوا۔اساتذہ کی اپنی دنیا تھی طلبا ء طالبات کی اپنی دنیا۔اس دوران آپس میں رنجشیں،کھینچا تانی اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔مگر کوئی ناخوشگوار کوئی واقعہ یا یاد نہیں ہے کہ ہم دوست دوبارہ اکٹھے نہ ہو سکتے۔اب جب وہ وقت یاد کرتے ہیں تو سب ہنستے ہیں اور یہ کہتے ہیں ہارمون کے زیر اثر ہم لوگ کیا کیا کر جاتے تھے۔خیر 2001کے بعد ہم سب لوگ اپنی دنیا میں چلے گئے۔اس ارے عرصہ میں مجھ سے جس کا رابطہ رہا جام اشعر انواز تھا۔اس سے خط و کتابت کے بعد فون پھر فیس بک اور پھر واٹس پر بات ہوتی رہی۔شاکر احمد شاہد جو آج کل اے آئی جی پنجاب ہیں ان سے مسلسل رابطہ رہا۔بھلا ہو واٹس ایپ بنانے والے کا اس پر عرفان چوہدری نے واٹس ایپ گروپ بی زیڈ یوکے نام سے بنایا۔اس گروپ میں اب ہمارے پاس ایک اور موضوع سیاست کا آ گیا تھا۔اس پر ہلکی پھلکی ناراضگی ہو جاتی تھی مگر پھر راضی نامہ ہو جاتا۔
چند مہینے قبل ملک خورشید لبھیجہ نے مجھے ملتان آنے کی دعوت اسی گروپ میں دی تو دل چاہاپر ہوں تو ابھی اڑ کر پہنچ جاؤں میرے منہ سے نکلا نومبر میں لاز،می آؤں گا۔بالاآخر نومبر بھی آگیا۔میں نے تیاری باندھی۔ملتان کے لمبے سفر کا سوچ کر بخار آنے لگا۔باقی دوستوں کو جام اشعر نے مدعو کیا۔اور خضر کی یہ بات کہ ملک خورشید جس طرح سے ہمیں بلا رہا ہے دل کرتا ہے پیدل ہی چلے جائیں۔
خیر فیض آباد سے میں بزنس کلاس گاڑی پر بیٹھا بیٹھتے ہیں ملتان سے ابرار محی الدین”باری“ کی کال آگئی کہنے لگا ناشتہ میرے پاس کرو اور یہاں سے اکٹھے چلیں گے۔یہ بتاؤ کہ ناشتہ کیا کرو گے؟ میں سوچ میں پڑگیا جو ملتا ہے کھا لیتے ہیں مگر باری سے فرمائش کر دی کہ عربی ناشتہ کراؤ تو میں رکوں گا اس نے بھی فوراََ جواب دیا خورشیدکے پاس جا رہے ہو خورشیداں کے پاس نہیں۔دو گنٹے بعد بس ہوسٹس نے کہا دس منٹ بریک کر لیں۔اس کے بعد دو گھنٹے اس نے ایک بار پھر یاد دہانی کرائی۔تیسری بار وہ کہنے لگی ملتان آ گیا ہے اپنا اپنا سامان لیں اور چلتے بنیں۔مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہاں 12 گھنٹے اور کہاں 6 گھنٹے ایک بار میں نے اپنی گھڑی دیکھی پھر یقین نہ آیا تو بس کی سکرین پر دیکھا ہم واقعی ملتان آ گئے تھے۔موٹرویز نے زندگی آسان بنا دی ہے اور رستے سمیٹ دیے ہیں۔تھوڑی دیر انتظار کے بعد خورشید کی گاڑی آ گئی اور ہم بستی شجاع آباد روانہ ہو گئے۔ملتان کے دیہاتوں کی سڑکیں کچھ کچھ ٹوٹی ہیں وہ بھی سیلاب کی وجہ سے مگر ہماری سڑکوں سے پھر بھی بہتر ہیں۔
ملک خورشید کے ڈیرے پر اس کے والد صاحب او ر بھائی جاوید میرے منتظر تھے۔ان سے طویل گپ شپ ہوتی رہی دن کو میں نے جب خورشید کے ڈیرے پر کک اور دیگیں دیکھیں تو اس سے پوچھا اتنا انتظام کس لئے۔جب شام ہوئی تو پتہ چلا جب سارے آتے گئے پہلے جام اشعر پہنچا پھرباری،چوہدری عرفان،راؤ اعجاز اور خضر چغتائی آئے ان کے بعد ملک نازک عباس بھی دریائے چناب پار کر کے سسی کی طرح ہمیں ملنے آ پہنچا۔سب سے زیادہ دیر لیہ ٹیم نے لگائی۔مہر اشرف، مختار صراطی ساجد ہیرو اور یسین رات کو سات بجے کے بعد آئے۔اس کے علاوہ خورشید کے اپنے دوست بھی جمع تھے وہ بھی بڑھ چڑھ کر سب کا خیال رکھ رہے تھے۔
جب تک کھانا لگتا سبھی ایک دوسرے کے ساتھہنسی مذاق میں مصروف تھے۔ایسا لگا ایک بار پھر ہم اے بی ہال میں بیٹھے ہیں یا پھر یونیورسٹی کے کسی لان میں ہماری گیٹ ٹو گیدر ہو رہی ہے۔سبھی مجھے کہ رہے تھے تم زیادہ سفر کر کے آ رہے ہو مگر ہر ایک اپنی اپنی مصروف زندگی سے وقت ناکل کر آ یا تھا۔اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز وقت ہے جو شخص اپنا وقت دے دے اس کی کوئی قیمت نہیں لوٹا سکتا۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو باری سے غزل سنانے کی فر مائش ہوئی اس نے فیض احمد فیض کی غزل مخصوص انداز میں سنائی۔پھر پروفیسر اختر نے اپنی مدھر آواز میں جب غزل گائی تو شجاع آباد کی سرد رات،دوستوں کی محفل اور ملک خروشید لبھیجہ کی شاندرا میزبانی میں ایک سماں بند گیا اور ہم سب کھو گئے۔
ابرار باری وہ شخص تھا جس نے پہلے دن سے لے کر آخری دن بس اڈے تک چھوڑنے میں میرے ساتھ خوب دوستی نبھائی میرے پاس ہونے کی خبر بھی اسی نے دی اور کہنے لگا یار ملتان آ جا دو دن لئی۔کلاس ک سیاست کی وجہ سے میں کئی بار اس کی دل شکنی کا باعث بنا۔میری ملاقات باری سے پہلے بھی ہوئی تھی اس نے محسوس تو نہیں ہونے دیا مگر مجھے لگتا تھا جب تک اس سے بالمشافہ معافی نہ مانگ لو ں تو مجھے سکون نہیں ملے گا۔خیر ہمیشہ کی طرح ان سب باتوں کا اس کا جواب بس ایک مسکراہٹ تھی۔
اس موقع پر مہر غضنفر جو یو کے، راؤ ندیم جو یو اے ای میں تھے،ڈاکٹر امین اور چوہدری سعید جو ذاتی مصروفیات،وصیداللہ جو کہ گلگت میں تھا،رمضان ذاتی مصروفیات اور فیض الحسن کا کہنا تھا اسے پیغام ہی نہیں ملا شریک نہ ہو سکے۔مگر انکا ہماری محفل میں بار بار تذکرہ ہوتا رہا۔
خورشید لبھیجہ نے جس طرح سے اپنا ولیمہ کی یاد تازہ کی اس کا شکریہ ادا کرنے کیلئے الفاط ہی نہیں مل رہے۔
دعا سب سلامت رہیں اور پھر دوبارہ ملیں۔