Tarjuman-e-Mashriq

گورائی

تبصرہ نگار : ارشد منہاس- پبلشر 
بانڈی پورہ،استور اور نیلم کے درمیان منقسم،ہندکو، کشمیری اور شینا بولنے والوں کے مشترکہ دیس’’وادیِ گریس‘‘پرایک مکمل،معلوماتی,سیاحتی اورتاریخی دستاویز۔
اس سےقبل اس موضوع پرآپ نے منقسم تینوں حصوں کے بارے میں یکجاتفصیلات کسی کتاب میں نہیں پڑھی ہوں گی۔
اس منقسم حصے میں بسنے والے، یا پھر کسی حصے میں سیاحت کے لیے ہوئے کچھ دوستوں نے ’’سفرنامے‘‘کی صورت میں یا کسی آرٹیکل یا مضمون میں چیدہ معلومات مہیاکی ہوئی ہیں وہ بھی خاص کسی ایک حصے کےبارےمیں۔
اس طرح تینوں حصوں کی تفصیلات مہیانہیں کی ہوئی تھیں جس طرح مذکورہ کتاب میں تینوں حصوں کی جغرافیائی اور سیاحتی تفصیلات مثلاً مشہور سڑکیں، قصبے، دیہات،آبشاریں وجہ تسمیہ وغیرہ مہیاکی ہوئی ہیں۔
ایسی جامع کتاب آپ کی نظروں سےیقیناً نہیں گزری ہوگی۔کتاب کتنی جامع اورتحقیقی ہےیہ توکتاب جب آپ کے ہاتھ میں آئےگی توآپ خود ہی فیصلہ کریں گے۔اس سے قبل سمیع اللہ عزیز منہاس آرکیٹیکٹ صاحب کی باقاعدہ کتاب
 ناگ سے نیلم اورسمیع اللہ عزیزمنہاس صاحب کے سنڈےایکسپریس،ماہنامہ معلومات،نوائےوقت،صدائے نیلم اوردیگرمختلف اخبارات وجرائد میں مضامین چھپتے رہے ہیں۔
ویسے آج کل جس طرح سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کسی بھی اخبار ، سنڈے میگزین یا کسی ویب سائٹ یا سوشل سائٹ پر اپنے مضامین شائع کروانا کوئی خاص مشکل نہیں ہے۔ لیکن ۔۔۔تصور کریں کہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا۔
اخبارات کی بھی اس طرح بھرمار نہیں تھی۔ اس وقت کسی اخبار میں کالم چھپنا یا سنڈے میگزین میں جگہ حاصل کرنا کتنا آسان یا مشکل ہوگا۔
یہ صرف وہ احباب سمجھ سکتے ہیں جو اُس دور میں لکھتے تھے۔سمیع اللہ عزیز منہاس صاحب پیشے کے لحاظ  سے ایک ’’آرکٹیکٹ‘‘ہیں اور جنوں کی حد  تک ایک ’’تحقیقی لکھاری‘‘ہیں۔
لکھاری ہونااورآرکیٹیکٹ ہوناایساہےگویا سونے پر سُہاگہ ہونا۔کیونکہ آرکیٹکچرل آرٹ ایک لکیرکافقیرپروفیشن نہیں ہے،
جس میں مکھی پرمکھی بٹھاکر روایتی فارمولہ پروفیشن کے حساب سے کسی فائل پردستخط کردیئے۔ یاصبح نوسےپانچ بجے تک کرسی گرم کی اور گھرآکربچوں اور دوستوں میں مگن ہوگئے۔ بلکہ اس آرٹ میں کلائنٹ کی ضرورت،شوق،دلچسپی کےساتھ اسٹرکچرکی شیپ،طاقت اورکلائنٹ کابجٹ اور وقت وحالات سے کی ضرورت ومطابقت وغیرہ دیکھنے کےساتھ ساتھ چیزکاحسن بھی مدنظررکھناہوتاہے۔جس سےہربارایک منفردشاہکارتخلیق ہوتاہے۔
بالکل اسی طرح ان کیفیات سےایک اچھے رائٹراور محقق کوبھی گزرناپڑتاہے۔مختلف واقعات اورحقائق کوپہلےالفاظ میں ڈھالنا،پھرالفاظ کواس طرح ترتیب دیناکہ پڑھنے والے کی دلچسپی برقراررہے۔انتہائی مشکل کام ہے۔ جیسا کہ فکشن ناول وغیرہ پڑھنے والے احباب جانتے ہیں۔ کہ وہ تاریخی ناول جن میں بناوٹ کا تڑکا نہ ہو وہ بھی انسان کو بور کردیتے ہیں۔
سمیع اللہ عزیزمنہاس صاحب کاقلم اس کاخیال رکھتاہےکہ قاری بور نہ ہو اور اس کی دلچسپی برقرار رہے۔یہ کوئی ناول یاکہانی نہیں بلکہ ایک تاریخ ہے۔تواس لیےاس کتاب میں آپ کویقیناًسنسنی،تجسس اورلفاظی نہیں ملےگی ۔
لیکن۔۔۔۔۔۔علم وتحقیق کاخزانہ ضرورملےگا۔
اس سےقبل سمیع اللہ عزیز منہاس کی کتاب’ ناگ سے نیلم’ حلقہ ذوق وادب میں الحمدللہ مقبولیت پاچکی ہے۔
سمیع اللہ عزیز منہاس صاحب کی پہلی کتاب ’ناگ سے نیلم’ بھی اپنے موضوع کے حساب سے ایک منفرد اور لاجواب کتاب ہے۔
اور الحمدللہ اب اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آنے عنقریب شائع ہونے والا ہے۔
دوسرا ایڈیشن اب تک آجاتا لیکن اس میں برطانوی سامراج اور اس سے قبل کی کچھ مزید تحقیقات شامل ہونی ہیں،جیسا کہ وادی نیلم میں اسٹون ہیریٹج (stone heritage) اورلال بتیاں اوربدھ مت کے آثاروچند دیگر مزید تحقیقات ۔جوکہ ان شاء اللہ بہت جلد مکمل ہوکر صاحبان علم ودانش کے ہاتھوں کی زینت بنے گی۔
میں نے کہیں پڑھا تھا
فارغ مباش کچھ کیا کر
سلے ہوئے پاجامے اُدھیڑ کر سیا کر
اس شعر کا غلط مطلب نکالتے ہوئے کچھ ’’فارغ‘‘ احباب نے ’’فارغ‘‘ رہنے کے بجائے کچھ کرنے مناسب سمجھا
اور انہوں ’’ناگ سے نیلم‘‘ سے متعلق کچھ ’’تنقید‘‘ بھی کی ہے۔جسےمیرے خیال میں ’’تنقید‘‘ کہنا مناسب نہیں ہوگی
کیونکہ تنقید ایک ’’علمی اصطلاح‘‘ اور ’’کام‘‘ ہے۔ تنقید کرنےکےلیے بھی ’’علم‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔
جوکہ ہمارے ان ’’نقاد‘‘ دوستوں کے پاس نہیں ہے۔ تو انہوں نے ’’دلائل‘‘ و’’براہین‘‘ اور تاریخوں حوالوں کی روشنی میں
تنقید کرنے کے بجائے ، ذاتی آراء کی بنا پر ’’تنقید ‘‘ کو ترجیح دی ہے۔ آج تک اس موضوع پر جن احباب سے بھی بات ہوئی ہے۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ تنقید  کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہےجنہوں نے اس کتاب کے شاید پانچ صفحے بھی پورے نہیں پڑھے ہوں گے۔
باقی کسی بھی تحقیقی کام میں محققین کی آراء مختلف ہوسکتی ہیں۔ لیکن آراء کا یہ مختلف یا متضاد ہونا بھی ’’تاریخی حوالوں‘‘ کے حساب سے ہوتاہے۔
لیکن ناگ سے نیلم پر تنقید کرنے والے احباب جن کی تعداد اتونتہائی کم ہے. تاریخی حوالے تو ان کے پاس بالکل نہیں ہیں۔
اگر آپ نے ناگ سے نیلم کا مطالعہ نہیں کیا ہے تو ضرور کریں۔ اور پھر اپنی رائے کا اظہار کریں۔
یہ میری ذاتی  رائے یا تبصرہ سمیع اللہ عزیز منہاس صاحب کی نگارشات پر ہے۔ضروری نہیں کہ آپ کو بھی میری رائے سے اتفاق ہو۔
اگر آپ نے سمیع اللہ عزیز صاحب کی کتاب یا کالمز وغیرہ پڑھے ہیں اور آپ کی رائے مجھ سے مختلف ہےتو یہ آپ کا حق ہے۔
لیکن،اگر آپ کو کتاب پڑھے بغیر ہی اس کے مندرجات پر اعتراض ہےتو بھی آپ کی مرضی شائد یہ بھی آپ کا حق ہے.
Exit mobile version