Tarjuman-e-Mashriq

مراکو… مشرق و مغرب کا امتزاج 

 
میں ہر واپس آنے والے سے بڑے اشتیاق سے استفسار کرتایعنی پوچھتا کہ آخروہ کونسی ایسی کشش ہے جو آپ کو مراکو( جسے پاکستان میں عام طور پر مراکش کہا جاتا ہے) کی طرف کھینچتی ہے مگرجواب میں وہی معنی خیز مسکراہٹ اور ایک ہی جملہ کہ ’’جب آپ خود مراکو جائیں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا‘‘۔ مراکو نہ ہوا کوئی جادو نگری ہو گئی جس کا احوال خود جا کرمعلوم کیا جائے۔ میرے عزیز دوست شہزاد خان اور پاکستان میں مراکو کے سفیر اعزاز اشتیاق بیگ بارہا اصرار کر چکے تھے کہ ’’مراکو چلیں‘‘ حالانکہ مراکولندن سے ڈھائی تین گھنٹے کی ہوائی مسافت پر ہے مگراس کے باوجود کئی بار پروگرام بنتے بنتے رہ گیا لیکن گذشتہ موسم گرما کے وسط میںشہزاد خان نے فون پرحکم صادر کیا کہ تیار ہو جائیں اس بار ہم دوست آپ کے بغیر مراکو نہیں جائیں گے اوراچھی خبر یہ ہے کہ نسیم احمد صاحب بھی ہمارے ساتھ ہوں گے جبکہ اشتیاق بیگ اور چوہدری محمد سرور پاکستان سے مراکش پہنچیں گے۔ نسیم احمدصاحب کی وجہ سے مراکو جانے کے سلسلہ میںمیری نیم رضا مندی ، رضا مندی میں تبدیل ہو گئی۔ نسیم احمد صاحب جو ایسٹ لندن میں معروف قانون دان ہیں میرے لئے عمدہ اور نفیس رفیق سفر ہیں ۔ اُن کے ساتھ ڈنمارک اور مناکو جانے کا موقع میسر آیا ہے جہاں اُن کی رفاقت میں بے حد اچھا وقت گزرا اور ان ملکوں کے سفر کی خوشگوار یادیں ابھی تک تازہ ہیں۔ یہ طے ہوا کہ گھر سے ہوائی اڈے تک جانے کے لئے کار کی بجائے وکٹوریہ سٹیشن سے گیٹ وک ایکسپریس کی سہولت سے استفادہ کیا جائے۔ میں، نسیم احمد صاحب اور شہزاد خان صاحب مقررہ وقت پر وکٹوریہ سٹیشن پہنچنے کے لئے اپنے اپنے گھروں سے نکلے۔ ویسٹ منسٹر سٹیشن سے میں نے ٹرین تبدیل کی تو اتفاق بلکہ حسن اتفاق سے نسیم صاحب مجھے ٹرین ہی میں مل گئے اور یوں ہم اکٹھے وکٹوریہ پہنچے اور شہزاد خان کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد خان صاحب بھی ہم سے آن ملے۔ وکٹوریہ سٹیشن پر حسبِ معمول خوب گہما گہمی تھی سیکڑوں مسافر اس مصروف سٹیشن سے اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو رہے تھے۔ آتے جاتے مسافروں کی وجہ سے بہت صبح سویرے سے رات گئے تک اس سٹیشن کی رونق برقرار رہتی ہے۔ گیٹ وک ایکسپریس کے دو طرفہ یعنی ریٹرن ٹکٹ ہم خان صاحب کے آنے سے پہلے ہی لے چکے تھے چنانچہ اس نان سٹاپ ٹرین میں سوار ہو کر ہم تقریباً آدھ گھنٹے میںگیٹ وک پہنچ گئے جہاں سے پونے دو گھنٹے بعد ہمیں رائل مراک ایئرلائن کے ذریعے کاسا بلانکا روانہ ہونا تھا۔دو بج چکے تھے،پیٹ کھانے کا مطالبہ کر رہا تھا، بورڈنگ کارڈ لے کر ہم ایک ریستوران میں جابیٹھے جہاں فش اینڈ چپس سے ہماری تواضع ہوئی۔ کھانے کے بعد ابھی ہم کافی کی آخری چسکیاں لے رہے تھے کہ ہماری فلائٹ کے گیٹ نمبر کا اعلان ہو گیا۔ جہاز میں خوش مزاج عملے نے پورے تین گھنٹہ کی فلائٹ کے دوران ہر مسافر کا خیال رکھا۔ کھانے، چائے،کافی اور پھلوں کے رس نے سفر کا لطف دوبالا کر دیا۔ ہم تینوں دوستوں کو چونکہ ایک ہی رو میں نشستیں ملی تھیں اس لئے گپ شپ میں سفر کا پتہ ہی نہ چلا اور ہم شام ڈھلے کاسا بلانکاکے ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔ جہاز سے نکل کر امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ آج کے دن اس ایئرپورٹ پر اکا دکافلائٹس ہی آتی ہیںاس لئے مسافر بھی کم تھے اور ہم امیگریشن کاؤنٹر سے اپنے پاسپورٹس پر مہر لگوا کر جلد ہی باہر نکل آئے۔برطانوی پاسپورٹ پر سفرکرنے والوں کو مراکو کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ باہر نکلے تو اشتیاق بیگ کا ڈرائیور ہمارے نام کی تختی اُٹھائے باہر انتظار کر رہا تھا۔
کاسا بلانکا مراکو کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی مرکز ہے جہاں دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جو انسانی کوششوں کا بڑا کارنامہ ہے۔Atlantic یعنی بحر اوقیانوس کا یہ ساحلی شہرد ارالبیضاء بھی کہلاتا ہے۔ یوں تو کاسابلانکا کی تاریخ خاصی قدیم ہے مگر فرانسیسی تسلط کے اثرات اس شہر میں عمارتوں سے لے کر طرز زندگی تک ہر جگہ واضح طور پر محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ لندن میں درجہ حرارت 18 ڈگری سنٹی گریڈ تھا جبکہ کاسا بلانکا میں ٹمپریچر 30 ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔درجہ حرارت کی تبدیلی نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا اور ہم موٹر وے سے ہوتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں مراکو کے دارالحکومت رباط پہنچ گئے۔
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کی طرح رباط بھی ایک کشادہ خوبصورت شہر ہے جب ہم رباط شہر پہنچے تو رات ہو چکی تھی پورا شہر دور سے جگمگاتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پولیس کی ایک عارضی چوکی سے گزر کر ہر گاڑی شہر میں داخل ہو رہی تھی چونکہ یہاں غیر ملکی سفارت خانوں اور سفیروں کی بڑی تعداد موجود ہے اس لئے سیکورٹی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اشتیاق بیگ کی رہائش شہر کے مرکز میں ہے جب ہم آٹھویں منزل پر اُن کے اپارٹمنٹ تک پہنچے تو وہ کشادہ دلی سے ہمارے استقبال کے لئے وہاں موجود تھے، وہ بھی دوپہر کو پاکستان سے رباط پہنچے تھے۔ ملاقات کی سرشاری نے سارے سفر کی تھکاوٹ دور کر دی اور گپ شپ نے بھوک کا احساس ہی نہ ہونے دیا۔ نعیمہ نے جب رات کا کھانا میز پر ترتیب دیا تو تاجین کی خوشبو نے ہم سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ تاجین مراکو کی سب سے مقبول اور مرغوب ڈش ہے جو تازہ گوشت اور سبزی سے تیار کی جاتی ہے۔ تاجین کھا کر لطف آ گیا اور ہم نعیمہ کے ہاتھ کے ذائقے کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ نعیمہ، اشتیاق بیگ کے اپارٹمنٹ کی نگہبان ہے جو ناشتہ اور کھانا بنانے سے لے کر گھر کے دیگر امور اور انتظامات کو بخوبی سنبھالتی ہے اور مہمانوں کی میزبانی میں کوئی کمی نہیں رہنے دیتی۔ رباط میں ہماری پہلی صبح کا آغاز فجر کی اذان بلکہ اذانوں سے ہوا۔ ہم جس عمارت میں رہائش پذیر تھے اس کے چاروں طرف مساجدکے لاؤڈ سپیکرز سے چند سیکنڈز کے فرق سے فجر کی اذانیں ہونا شروع ہوئیں جنہیںسن کر صبح سویرے ایک ایسی روحانی کیفیت بیدار ہوئی جو ابھی تک حافظے میں محفوظ ہے۔اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو صبح کا نور پھیل رہا تھا اور تازہ ہوا سے کھڑکی کے پردے لہرا رہے تھے۔ ایسی ہی صبح کے بارے میں جوش ملیح آبادی نے کہا ہے
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لئے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
سورج طلوع ہوا تو اپارٹمنٹ کی آٹھویںویں منزل سے رباط کا پرانا بازار اور شہرواضح دکھائی دینے لگا جسے مقامی لوگ مدینہ کہتے ہیں۔ اس پرانے شہر کے گرد ایک اونچی اور مضبوط فصیل تھی جس سے آگے تا حد نظر بحر اوقیانوس یعنی اٹلانٹک اوشن نظر آ رہا تھا۔شہرکے گرد فصیل بارھویں صدی میں خلیفہ یعقوب المنصور نے تعمیر کروائی تھی جو اس وقت دفاعی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل تھی صرف یہی نہیں بلکہ اس نے رباط کے مضافات میں دریا کنارے ادا یاس کسبہ کی بنیاد بھی رکھی جس میں دنیا کی طویل ترین مسجد کی تعمیر کا آغاز بھی کیا گیا لیکن زندگی نے خلیفہ یعقوب المنصور سے وفانہ کی اور یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا مگر آج بھی اس کے آثار موجود ہیں اور حسن ٹاور کے نام سے ایک مینار اب تک اپنے ماضی کی داستان سنانے کے لئے ایستادہ ہے۔ ویسے تو رباط کے نام سے ایک چھوٹا سا شہر یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک مالٹا میں بھی موجود ہے مگر مراکو کے دارلحکومت رباط کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ جدید اور قدیم طرزِ حیات کاشاندار امتزاج ہے۔ مراکو کے بادشاہ کا رائل پیلس یعنی شاہی محل دارالمخزن بھی اس شہر کے وقار کی علامت ہے او رچاروں طرف سے اونچی اور مضبوط فصیلوں سے گھرا ہوا ہے۔ مرکزی دروازے پر چاک و چوبند محافظ ہمہ وقت کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس محل کے ارد گرد کی شاہراہیں بہت کشادہ اور صاف ستھری ہیں ، سڑکوں کے کنارے کھجور اورپام کے درخت، خوبصورت فانوس نمالیمپ اور قالین کی طرح بچھائی گئی گہری سبز گھاس اور پھول رباط کے حُسن اور کشش میں اضافہ کرتے ہیں ان شاہراہوں سے گزرتے ہوئے آپ حسنِ انتظام کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مراکو میںبادشاہت کی تاریخ بہت قدیم ہے جس کا آغاز789ء میں بادشاہ ادریس کے دور سے ہو کر عصرِ حاضرمیں شاہ محمد السادس تک آ پہنچاہے۔ شاہ محمد السادس جنہیں کنگ محمد VIکے نام سے جانا جاتا ہے 23 جولائی 1999 کو اپنے والد کی وفات کے بعد تخت نشین ہوئے۔ کنگ محمد VI اپنے والد کی دوسری بیوی کے دوسرے بیٹے ہیں جنہیں پیدائش کے بعد ہی ولی عہد مقرر کر دیا گیا تھا اور ان کی تعلیم و تربیت پر بچپن سے ہی خصوصی توجہ دی گئی تھی انہوں نے قانون کی اعلی تعلیم حاصل کی اور انہیںفرانس کی یونیورسٹی آف نیس سے پی ایچ ڈی کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
کنگ آف مراکو شاہ محمد ششم اور اُن کے خاندان کا شمار دنیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ 2009 ء میں اُن کے اثاثوں کا اندازہ2.5بلین امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔ کنگ محمد جو کہ ملکی فوج کے سربراہ بھی ہیں بہت روشن خیال اور جدید سوچ کے مالک ہیں۔انہوں نے تاجپوشی کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی ملک سے کرپشن یعنی بدعنوانی اور غربت کے خاتمے کا وعدہ کیا تھا۔ معلوم نہیںیہ وعدہ کس حد تک پورا ہوا یہ تو اس ملک کے عوام ہی بتا سکتے ہیں بہرحال بدعنوانی اور غربت ہر مسلمان ملک کے لئے ایک بڑاالمیہ اور سنگین مسئلہ ہیں۔ کنگ محمد نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پارلیمنٹ اور عدلیہ کو بااختیار بنانے کے لئے اصلاحات کی راہ ہموار کی، خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا اور عوام کی شخصی آزادی کو مقدم بنایا گیا۔ یہ وہ اقدامات ہیں جس کا اثر پورے معاشرے میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ 3کروڑ 40 لاکھ آبادی اور 7 لاکھ 10 ہزار 850 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل کنگڈم آف مراکو شمالی افریقہ کا وہ ملک ہے جو یورپ سے قریب تر ہے۔ مراکو کا محل وقوع بہت دلچسپ ہے۔ اس کے ایک طرف صحرائے صحارا )جو94 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے( دوسری طرف الجیریا اور باقی اطراف میں اٹلانٹک اوشن یعنی بحر اوقیانوس اور Mediterrannean Seaیعنی بحیرہ روم اور سپین ہے ۔صحرائے صحارا94 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے۔ اگر آپ مراکوکے ایک خوبصورت شہر طنجیر جائیں تو وہاںایک ایسا پہاڑی مقام بھی آتا ہے جہاں سے آپ بحر اوقیانوس کے سبز اور بحیرہ روم کے نیلے پانی کو آپس میں ملتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی تفصیل اس سفرکی داستان میں آگے جا کر آئے گی۔ بچپن میں ہم مراکش کو ہی مراکو سمجھتے تھے حالانکہ مراکش تو مراکوکے ایک شہر کا نام ہے بہرحال مراکو مشرق و مغرب کا ایک خوبصورت سنگم ہے۔ یہاںعربی، فرانسیسی اور افریقی تہذیب و ثقافت کے نقوش ایسے مدغم ہو گئے ہیں کہ ہم جیسے اجنبیوں کے لئے یہ شناخت کرنا مشکل ہو جاتاہے کہ دلآویز اور دلکش چہرہ مشرقی ہے یا مغربی۔ یہاں کی نوجوان لڑکیاں حجاب میں بھی نظر آتی ہیںاورسکرٹ اور جینز میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اُن کی رنگت اور نقوش یورپی بھی ہیں اور افریقی بھی۔ اسی طرح لڑکے بھی یورپی اور افریقی رنگ و روپ کا امتزاج ہیں۔
دارلحکومت رباط ہمیں اس لئے بھی اچھا لگا کہ یہاں قدم قدم پر تاریخ کے آثار بکھرے پڑے ہیں ویسے تو پورا مراکو ہی تاریخ بلکہ اسلامی تاریخ کے حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے لیکن رباط، رباط ہے۔ میری اور نسیم صاحب کی اولین کوشش اور خواہش تھی کہ ہم رباط شہر میں پیدل گھومیں، ٹرام اور بسوں میں سفر کریں، اہم تاریخی مقامات دیکھنے کی سعادت حاصل کریں، عام لوگوں سے ملیں، بازاروں میں سیر سپاٹا کریںلیکن ہمیں طنجیر جانے کا حکم سنایا جا چکا تھا۔ جہاں شہزاد خان کے ایک دوست سے ملاقات ناگزیر تھی چنانچہ ہم نے ناشتے کے بعد رباط سے طنجیر جانے کے لئے رخت سفر باندھ لیا۔ ابھی یہ طے نہیں ہوا تھا کہ ہم نے طنجیرمیں رات قیام کرنا ہے کہ نہیں بہرحال ہم سب یعنی نسیم احمد،شہزادخان اور اشتیاق بیگ ایک ہی گاڑی میں ڈرائیور کے ہمراہ طنجیر روانہ ہو گئے جو سڑک کے ذریعے تقریبا چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ طنجیر کو عربی میں طنجہ کہتے ہیں اور اسے ابن بطوطہ کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وہی ابن بطوطہ ہیںجنہیںبرصغیر میں ایک سیاح اور دانشور کے طور پر جانا جاتا ہے رباط سے طنجیر کا سفر بہت دلآویز ہے ۔موٹر وے پر جگہ جگہ ٹول ٹیکس کی راہداریاں آتی ہیں اور موٹر وے کے دونوں طرف خشک پہاڑ اور صحرائی میدان تاحدِ نگاہ پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔کہیں کہیں آبادی اور اکادکا گھر بھی نظر آتے ہیں اور اُن کے ساتھ ایکڑوں پر پھیلے زیتون کے باغات اور سبزیوںکے کھیت موٹر وے کے مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ وقفے وقفے سے کنٹرولڈ فارمنگ یعنی فصلوں کے لئے مصنوعی ماحول اور درجہ حرارت سے بنائے جانے والے خیمے بھی موٹر وے کے دائیں بائیں موجود تھے اور اُن کے ساتھ لہلہاتے کھیتوں کو فواروں کے ذریعے پانی دیا جا رہا تھا جہاں کہیں زمین بالکل خشک اور صحرائی تھی وہاں قطار در قطار کیکٹس کے پودے لگے ہوئے تھے۔ جب ہم طنجیر کی حدود میں داخل ہوئے تو دوپہر ڈھل رہی تھی، شہزاد خان نے جس دوست سے ملنا تھا وہ کسی کاروباری مصروفیت میں پھنسا ہوا تھا چنانچہ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے اس مقام کو اپنی منزل بنایا جائے جہاں دو سمندر یعنی بحر اوقیانوس اور بحیرہ روم آپس میں ملتے ہیں۔ بلند وبالا پہاڑی پر واقع اس جگہ سے نیلے اور سبز سمندر کے ملاپ کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں اس جگہ کو کیپ سپارٹل کہتے ہیں۔
کیپ سپارٹل پہنچے تو خوارک کی طلب ہمیں اس ریستوران تک لے گئی جو یہاں سب سے بلند مقام پر تھا۔ ہم ریستوران کے ہال میں بیٹھنے کی بجائے اوپن ایئر لنچ ایریا میں آ گئے جہاں اونچی اور کشادہ چھتریاں کھانا کھانے والوں پر سایہ کئے ہوئے تھی، دھوپ تیز تھی لیکن بلندی پر ساحلی ہوا کی ٹھنڈک نے ماحول کو خوشگوار بنا رکھا تھا یہاں سے دونوں سمندروں یعنی Atlantic اور Mediterraneonکے نیلے اور سبز پانی کا ملاپ صاف نظر آ رہا تھا۔ ریستوران کے سامنے مراکو میں بنائی جانے والے ہنڈی کرافٹس فروخت کی جا رہی تھیں جن میںسیاح خاص دلچسپی لے رہے تھے ۔اس عارضی چھوٹی سی مارکیٹ کے آگے پہاڑی ڈھلوان تھی جہاں طرح طرح کے درختوں کے جھنڈ لہرا رہے تھے اور کئی اونچے درختوں کی چوٹیوں پر سفید اور کالے پروں والے بگلوں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ایسے ہی گھونسلے ہم نے مراکو کی کئی قدیم عمارتوں کی ممٹیوں پر بھی بنے دیکھے۔ اِن درختوں کے درمیان پگڈنڈیاں بنی ہوئیں تھیں اور اس دشوار رستے سے گزرکر ساحل سمندر تک پہنچا جا سکتا تھا۔ لیکن جنگلی جانوروں کے خدشے کی وجہ سے کوئی ان پگڈنڈیوں سے ساحل سمندر تک پہنچنے کا رسک نہیں لیتا۔ ریستوران میں تازہ سلاد،اعلی قسم کی مچھلی اورپنیر پر مشتمل کھانے کے سبب ہم سب کی طبیعت پھر سے ترو تازہ ہو گئی اور ہم سب قہوہ پی کر ساحل سمندر کا نظارہ کرتے ہوئے واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے۔ ساحل سمندر پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بڑی تعداد آفتابی غسل اور پکنک سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ بہت سی لڑکیاں اور عورتیں حجاب پہنے، ننگے پاؤںساحل کی ریت پر چہل قدمی کر رہی تھیں، فیملی کے ساتھ آنے والے بچوں کو اونٹ کی سیر کروا رہے تھے۔
ہماری اگلی منزل طنجیر کی بندرگاہ تھی جہاں سے بحری جہاز میں بیٹھ کر لوگ جبرالٹر یعنی جبل الطارق جاتے ہیں۔ 6.7مربع کلومیٹر پر مشتمل اس جزیرے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ اور تاریخی ہے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں اس جزیرے پر سپین نے اپنا تسلط قائم کیا بعد ازاں برطانیہ اس پر کنٹرول کا دعوے دار بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں یہ چھوٹا سا جزیرہ برطانوی رائل نیوی کا اہم مرکز رہا اب بھی جبرالٹر برطانیہ اور سپین کے درمیان ایک اہم تنازعہ ہے۔ 30 سے 32 ہزار افراد کی آبادی والے اس منفرد جزیرے پر اب برطانوی کنٹرول ہے لیکن سپین اس تسلط کو تاحال تسلیم نہیں کرتا ۔خاص طور پر 23 جون 2016 کو برطانیہ میں ہونے والے اس ریفرنڈم کے بعد جس میں عوام کی اکثریت نے یورپی یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اب سپین پھر سے اس جزیرے پر کنٹرول کی دعویداری کی راہ ہموار کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ دراصل یورپی یونین میں شامل رہنے یا نہ رہنے کے سلسلے میں ہونے والے برطانوی ریفرنڈم میں جبرالٹر کے شہریوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا تھا جس میں جبرالٹر کے 82 فیصد رہنے والوں نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ ڈالا تھا ،اس لئے اب یہاں کے لوگ اپنے مستقبل کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہیں اور سپین اس ریفرنڈم کے نتائج کے بعد جبرالٹر پر برطانوی تسلط بلاجواز قرار دے رہا ہے۔ ہم طنجیر کی بندرگاہ پر کھڑے اس سمندری جزیرے جبل الطارق کی پہاڑیوں کو دیکھ رہے تھے اور بحری جہاز مسافروں کو لے کر جبرالٹر کی طرف روانہ ہو رہا تھا جو یہاں سے تقریباً 9میل کی مسافت پر تھا۔ یہ وہی تاریخی جبرالٹر ہے جسے امتِ مسلمہ اور خاص طور پر پاکستانی مسلمان طارق بن زیاد کے حوالے سے جانتے ہیں اور جس نے ہسپانیہ (سپین) کے ساحل پراتر کر اپنی کشتیاں جلا دیں تھیں تاکہ اس کی فوج کے سامنے واپسی کی بجائے صرف فتح کا راستہ باقی رہے۔ جبرالٹر جانے کا پروگرام وقت کی قلت کے سبب نہیں بن سکا۔ اشتیاق بیگ،شہزاد خان اور نسیم احمد پہلے بھی اس جزیرے کی سیاحت کر چکے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہاں ایک بڑے کسینو اور کچھ تاریخی مقامات اورخوبصورت ساحلوں کے علاوہ دیکھنے کو زیادہ کچھ نہیں البتہ ایک بڑی شاندار مسجد دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جس کی تعمیر 1997 میں پانچ ملین پونڈ کی مالیت سے مکمل ہوئی تھی ۔اس مسجدابراہیم کے اخراجات سعودی عرب کے شاہ فہد نے ادا کئے تھے۔ جبرالٹر کے 78 فیصد لوگ کیتھولک عیسائی ہیں جبکہ یہاں 3.6 فیصد مسلمان، 2.4 فیصد یہودی اور 2 فیصد ہندو بھی آباد ہیں۔ طنجیر پورٹ سے نکلے تو ہمارا اگلا پڑاؤ ہرکولیس کی غار تھا جسے دیکھنے کے لئے لوگ دور و نزدیک سے خاص طور پر طنجیر آتے ہیں۔ اشتیاق بیگ کا اصرار تھا کہ پہلے قدیم طنجیر یعنی مدینہ کا چکر لگایاجائے تاکہ ہمیں اس شہر کے تاریخی آثار کا اندازہ ہو سکے۔ پرانا شہر بلندی پر واقع ہے یہاں تک پہنچنے کے لئے جدید طنجیر کے مرکز یعنی سٹی سنٹر سے ہو کر جانا پڑتا ہے۔ یہ جدید شہر بلند و بالا عمارتوں، کھلی شاہراہوں اور شاندار کاروباری مراکز پر مشتمل ہے۔ اس شہر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے کنگ محمدنے خصوصی توجہ دی کیونکہ اُس کی تخت نشینی سے پہلے اس شہر کو یکسر نظر اندار کیا جاتا رہا تھا۔ جیمز بانڈ کی نئی فلم سپیکٹر میںبھی پرانے طنجیر شہر کے کئی مناظر فلمائے گئے ہیں۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو راستہ بہت تنگ تھا اس لئے ہم گاڑی سے اتر کر اس پرانے شہر کی سیاحت کے لئے پیدل ہی نکل پڑے بلندی پر بنائے گئے اس شہر کے پرانے بازاروں میں انواع اقسام کی اشیاء فروخت ہو رہی تھیں قدیم قہوہ خانوں اور کافی ہائوسز کے سامنے لگی میز کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ حقے پی رہے تھے ۔بازاروں کے عقب میں پرانی رہائشی عمارتیں اپنی کا تاریخ کا بوجھ اٹھائے اپنے ماضی کی داستان سنا رہی تھیں۔ چلتے چلتے ہم پرانی طرز کی دکان کے سامنے رکے جہاں تربوز اور خربوزوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ یہ مراکوکی خاص سوغات ہیں اس موسم میں خربوزوں کی مٹھاس اپنی انتہا پر ہوتی ہے ہم نے ایک انتہائی پیلا خربوزہ منتخب کیا جو وزن میں دو کلو سے زیادہ تھا۔ خربوزے کو مقامی زبان میں بطخ کہتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ لوگ بطخ کو مقامی زبان میں کیا کہتے ہوں گے، ہم کافی دیر اس قدیم بازار میں مٹر گشت کرنے کے بعدہرکولیس کے غار کی تلاش میں روانہ ہوئے۔ اشتیاق بیگ ڈرائیور کو عربی میں ہرکولیس کی غار کے بارے میں بتانے لگے لیکن انہیں یاد نہیں آ رہا تھا کہ ہرکولیس کی غار کو عربی میں کیا کہتے ہیں۔ ڈرائیورصرف عربی جانتا تھا اس کی انگریزی کی سمجھ بوجھ واجبی سی تھی لیکن اشتیاق بیگ بالآخر اُسے غار کا پتہ سمجھانے میں کامیاب ہو گئے اور ہم پندرہ بیس منٹ بعد اس غار کے داخلی راستے پر پہنچ گئے جہاں اس غار پر ہرکولیس کے بارے میں معلومات مختلف زبانوں میں درج کی گئیں تھی۔ ہرکولیس ایک دیو مالائی اور تصوراتی کردا رہے جس کی بنیادی پہچان اور شناخت اس کی خداداد طاقت تھی جوتنہا شیروں کو پچھاڑنے، کئی منہ والے اژدھاؤں (ڈریگنز) کو قابو کرنے، خطرناک جنگلی جانوروں اور اپنے وقت کے سورماؤں کو شکست دینے میں بے مثال تھا۔ اس یونانی کردار کا تذکرہ اور حوالہ ایک طاقتور اور بہادر انسان کے طور پر دنیا کی ہر تہذیب اور خطے میں ملتا ہے۔ پاکستان میں گرائپ واٹر کی بوتل پر جس بچے نے اپنے دونوں ہاتھوں سے دو خطرناک سانپوں کی گردن دبا رکھی ہے یہ اسی ہرکولیس کے بچپن کی تصویر ہے یعنی اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے بچپن ہی سے قدرتی طور پر خطروں کوگرفت میں لینا شروع کر دیا تھا۔ ہرکولیس کے بارے میں کئی فلمیں بن چکی ہیں اور اس ماورائی کردار کی تصوراتی تصاویر آرٹ گیلریوں میں محفوظ ہیں۔ یہ طاقتور انسان بیشتر اوقات ننگا پھرتا تھا اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی درجنوں بیویاں اور ان گنت بچے تھے۔ رومن تہذیب میں ایک طویل مدت تک ایسا ہوتا رہا ہے کہ بیویاںاپنے شوہر کی امانت کی حفاظت کے لئے جو بیلٹ اپنی ناف کے نچلے حصے پر باندھتی تھیں اُسے ناٹ آف ہرکولیس (Knot of Hercule)کہا جاتا تھا اور اس گرہ کو شوہرکے علاوہ کوئی اور کھول ہی نہیں سکتا تھا۔ واللہ ا علم بالصواب۔ دیومالائی ہیرو ہرکولیس کی یہ غار جس مقام پر ہے اس کے ساتھ ہی کنگ آف مراکو کا سمر پیلس یعنی موسم گرما کے لئے شاہی محل موجود ہے جہاںمحافظ چاک و چوبند کھڑے تھے۔ سمندر کے کنارے اس غار کے بارے میں مشہور ہے کہ جب ہرکولیس اپنی گیارھویں مہم پر نکلا تو اس غار کو اس نے اپنا مسکن بنایا تھا ۔اس مہم کا مقصد اُن سنہری سیبوں کا حصول تھا جن کے باغ کی نگہبانی پرایک خطرناک ڈریگن معمور تھا۔ اس غار کے دو دھانے ہیں،ایک کا رخ سمندر کی طرف اور دوسرا خشکی کے رستے پر ہے یہ ایک قدرتی غار ہے لیکن اس کا بڑا حصہ تراش کر بھی بنایا گیا ہے۔ اس بل کھاتے ہوئے غار کے کئی حصوں کی بالائی سطح سے پانی رستا اور ٹپکتا رہتاہے اس غار میں جگہ جگہ روشنیوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ غار میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈک کااحساس ہونے لگا اور یہ غار سیاحوں سے بھرا رہتا ہے اور وہ مختلف حصوں میں تصاویر بنانے میں مصروف تھے۔ سمندر کی طرف کھلنے والے غار کے دھانے پر لوگوں کی بھیڑ تھی اس دھانے کی شکل براعظم افریقہ کے نقشے جیسی تھی یہاں پر لوگ تصاویر بنوانے کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اس دھانے سے آگے بڑے بڑے پتھر سمندر اور غار کے درمیان حائل تھے مگر سمندر کا پانی ان پتھروں سے ٹکرا کر واپس پلٹ رہا تھا اس افریقی نقشہ نما دروازے سے سمندر کا نیلا پانی دور تک دکھائی دے رہا تھا اس جگہ سے سمندر کو دیکھنا واقعی ایک منفرد تجربہ تھا جب ہم اس غار سے نکلے تو شام ڈھل رہی تھی چنانچہ ہم یہاں سے واپس رباط کا رخ کیا تاکہ رات کے کھانے سے پہلے اپنی قیام گاہ پر پہنچ جائیں۔ واپسی کا سفر بھی خوشگوار رہا اور ہم دن بھر طنجیر کی سیر و سیاحت کاتذکرہ اور اشتیاق بیگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رباط پہنچ گئے۔نعیمہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی فرمائشی تاجین اور خس خس تیار کر چکی تھی ہمارے پہنچتے ہی کھانامیز پر لگا دیا گیا ہم نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا اور طنجیر سے لایا ہوا خربوزہ یعنی بطخ سویٹ ڈش کے طور پر کھایا۔ یہ خربوزہ واقعی مٹھاس اور ذائقے کے لحاظ سے بہت عمدہ تھا۔ دن بھر سفر اور سیاحت کی وجہ سے ایسی گہری نیند آئی کہ سویرے سورج طلوع ہونے پر ہی آنکھ کھلی۔ ناشتے کی میز پر اشتیاق بیگ نے خبر دی کہ سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور صاحب مراکش پہنچ چکے ہیں اور مراکش آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ ناشتہ کر کے مراکش چلیں گے۔ جتنی دیر میں ہم نے ناشتہ کیا اتنے وقت میں ڈرائیور ضروری سامان گاڑی میں رکھ چکا تھا۔ رباط سے مراکش کا فاصلہ تقریباً سوا تین سو کلومیٹر ہے اور سڑک کے ذریعے یہ سفر عام طور پر ساڑھے تین سے چار گھنٹے کا ہے ۔ موٹر وے کے ذریعے آپ کو کاسابلانکا سے ہو کر جانا پڑتا ہے، یہاں بھی سفر کے دوران آپ کو موٹر وے کے دونوں طرف زیتون کے باغات، فصلوں اور موسمی سبزیوں کے کھیت اور کیکٹس اُگے نظر آتے ہیں۔ رستے میں کئی جگہوں پر انگوٹھا ہلاتے ہوئے پیدل مسافر بھی دکھائی دیتے ہیں جو ہر گزرنے والی گاڑی سے لفٹ مانگتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ مراکو میں ا بھی بے سواری مسافر کو لفٹ دینے کا رواج ہے اور یہاں لفٹ دینے کے معاملے میں حالات بہت سے یورپی اور ایشیائی ملکوں سے بہت بہتر ہیں۔ آدھا سفر طے کرنے اور کئی جگہوں پر ٹول ٹیکس دینے کے بعد ہم ایک سروس پر رکے جہاں سے کافی پینے اور تازہ دم ہونے کے بعد ہم پھر سے مراکش کے لئے روانہ ہوئے۔ مراکش میں داخل ہونے سے پہلے سڑک کے کنارے جگہ جگہ تازہ انجیر اور دیگر جنگلی اور صحرائی پھلوں کے چھوٹے چھوٹے باکس فروخت کے لئے رکھے ہوئے تھے اور ہم جیسے ہی مراکش میں داخل ہوئے تو ہر عمارت کا رنگ سرخی مائل نظر آیا جس کے بارے میں اشتیاق بیگ پہلے ہی بتا چکے تھے۔ شہر میں داخلے سے پہلے جگہ جگہ مٹی کے برتنوں اور ہنڈی کرافٹس کی دکانیں نظر آئیں جو مراکش آنے والے ہر نئے مسافر کو ایک بار ضرور اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ مراکش، کنگڈم آف مراکو کا اہم ثقافتی ، تجارتی اور سیاحتی مرکز ہے اس شہر کی بنیاد 1062 میں ابو بکر ابن عمر نے رکھی ۔ علی ابن یوسف نے 1123 میں اس شہر کے گرد مضبوط فصیل تعمیر کروائی جو سرخ رنگ کی ہے۔ مراکش کو اس کی عمارتوں کے سرخی مائل ہونے کی وجہ سے ’’ریڈ سٹی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔چوہدری سرور جس اپارٹمنٹ میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ شہر کے وسط میں تھا۔ سرور صاحب ہم چاروں یعنی مجھے، اشتیاق بیگ، شہزاد خان اور نسیم احمد کو اکٹھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہمیں بھی اسی عمارت میں کوئی اپارٹمنٹ رہائش کے لیئے مل جائے لیکن مراکش میں ٹورسٹس یعنی سیاحوں کی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے اس لئے ہمیں اس عمارت میں کوئی رہائش میسر نہ آ سکی۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد ہمیں قریب ہی ایک عمارت میں بہت آرام دہ اپارٹمنٹ مل گیا۔ چوہدری سرور پاکستانی سیاست کی گہما گہمی اور بدانتظامی سے اکتائے ہوئے تھے۔ مراکش میں ہم نے اُن کے چہرے پر وہ اطمینان دیکھا جو کبھی برطانوی پارلیمنٹ کا رکن ہوتے ہوئے اُن کے چہرے پر ہوا کرتا تھا ۔پاکستانی سیاست چوہدری سرور کے لئے وہ کمبل بن گئی ہے جس کے بارے میںآپ نے یہ قصہ ضرور سنا یا پڑھا ہو گا ’’ایک ریچھ پانی میں تیرتا ہوا جا رہا تھا کنارے پر کھڑے ہوئے ایک شخص نے سمجھا کہ کسی کا کمبل دریا میں گر گیا ہے جو پانی میں تیررہا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی لیکن جب وہ اس کمبل کے قریب پہنچا تو ریچھ نے اس تیراک کو دبوچ لیا۔ کنارے پر کھڑے ہوئے اس شخص کے دوسرے ساتھی نے آواز دی کہ کمبل کو دریا سے کھینچ کر باہر لے آؤ،مصیبت میں پھنسا ہوا تیراک بولا کمبل کھینچا نہیں جاتا۔ کنارے والے ساتھی نے مشورہ دیا کہ کمبل کو چھوڑ دو اور پانی سے باہر آ جاؤ، تیراک بے بسی سے بولا کہ میں تو کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا‘‘۔ پاکستان کی سیاست کا حال بھی کمبل جیسا ہے جو ایک بار دریا میں کود گیا پھر اگروہ کمبل کو چھوڑنا بھی چاہے تو کمبل اُسے نہیں چھوڑتا۔ چوہدری محمد سرور کو بھی پاکستانی سیاست نے دبوچ لیاہے۔ بہرحال مراکش میں سرور صاحب سے ملاقات اور گپ شپ کا لطف آ گیا اور پھر ہم شام کی ملاقات کا طے کر کے سرور صاحب سے رخصت ہوئے۔رات کا کھانا کسی رونق والی جگہ پر کھانے کا پروگرام بنا کر ہم اپنے اپارٹمنٹ سے نکلے ۔سرور صاحب سے ملاقات بلیوارڈ محمد پر ہونی تھی ہم وہاں وقت سے پہلے پہنچ گئے، کچھ ہی دیر بعد سرور صاحب بھی آ گئے ۔شہر کے اس مرکز میں رونق ہماری توقع سے بھی کچھ زیادہ تھی یہاں سے ہم ٹیکسی لے کر جافنا پہنچے جہاں دن کے وقت ضرورت کی ہر چیز فروخت ہوتی ہے اور یہ مارکیٹ نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ سیاحوں کے لئے بھی پرکشش جگہ ہے، رات کے وقت یہاں کھانے پینے کے سٹال انواع و اقسام کے کھانوں سے بھرے نظر آتے ہیں، کہیں بکرے کے تازہ گوشت سے تاجین تیار کی جا رہی ہے تو کہیں مرغی بُھن رہی ہے،کہیں کباب سیخ پر لگائے جا رہے ہیں تو کہیں سبزیوں کی ڈش بنا کر گاہکوں کو پیش کی جا رہی ہے ، کہیں مچھلی تلی جا رہی ہے تو کہیں پنیر کو روسٹ کیا جا رہا ہے تو کہیں کوفتوں سے گاہکوں کی تواضع ہو رہی ہے۔ اس فوڈ مارکیٹ کی طرف آنے والوں کو ہر سٹال کا عملہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ سرور صاحب سمیت ہم سب کو اس اوپن ایئر فوڈ مارکیٹ سے کھانے میں کچھ مضائقہ ہوا اس لئے ہم یہاں کے کھانوں کا ذائقہ چکھے بغیر نکل آئے۔ اس مارکیٹ کے ایک حصے میں بہت سے مداری طرح طرح کے کرتب دکھا رہے تھے جن کے گرد بہت سے لوگ جمع تھے اور اُن کے کرتبوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ مارکیٹ سے نکلنے والے لوگوں اور خاص طور سیاحوں کو چھوٹے چھوٹے کھلونے بیچنے والے بچے اور بچیاں گھیر لیتے ہیں اور انہیں زبردستی کچھ نہ کچھ لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس مارکیٹ سے نکلیں تو آپ کو ٹیکسی آسانی سے مل جاتی ہے۔ ٹیکسی کے علاوہ آپ گھوڑا گاڑی یعنی بگھی میں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں۔ یہ بگھیاں آپ کوشہر کی مرکزی شاہراہوں پر جا بجا دکھائی دیتی ہیں۔مراکش آنے والے یورپی سیاح اس بگھی کی سواری کا لطف ضرور اٹھاتے ہیں۔ مارکیٹ سے ٹیکسی لے کر ہم ایک قریبی ریستوران پہنچے جو مراکو کے روایتی کھانوں کے لئے مشہور تھا، سروس اچھی لیکن کھانا واجبی تھا اس لئے کھانا کھانے میں کم اور گپ لگانے میں زیادہ مزہ آیا ۔ یہاں سے اُٹھے تو اپنے اپارٹمنٹ پر دیر گئے تک محفل جمی رہی، سرور صاحب صبح کا ناشتہ اکٹھے کرنے کا وعدہ کر کے اپنے اپارٹمنٹ چلے گئے اور ہم رات گئے نیند سے ہم آغوش رہے اور صبح بیدار ہوئے تو طبیعت بحال اور سرشارہوچکی تھی۔ ناشتے کے لئے شہزاد خان اس ریستوران کی تلاش میں تھے جہاں انہوں نے پچھلی بار مراکش کے دورے میں ناشتہ کیا تھا لیکن اتفاق سے اس ریستوران کا نام اور پتہ یاد نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں شاہراہ محمد پر ایک اور ریستوران کا انتخاب کرنا پڑا یہاں ناشتے کا اچھا خاصا اہتمام تھا، آملیٹ، پنیر، زیتون، خمس، مالٹے کا تازہ رس اور دیگر کئی لوازمات اس ناشتے کا حصہ تھے۔ ہم نے ریستوران کے باہر کھلی فضا میں لگی میز کرسیوں پر بیٹھ کر ناشتہ کیا اسی دوران ایک نوجوان ہیٹ بیچنے کے لئے ہمارے پاس آیا تو ہم نے پانچ ہیٹ مراکش کی سوغات سمجھ کر خرید لئے اورپھر ہم یہ ہیٹ پہن کر ہی مراکش گھومتے رہے۔یہ ہیٹ خصوصی طور پر مراکش میں بنائے جاتے ہیں اور اکثر سیاح یہ ہیٹ ایک یادگار کے طور پر یہاں سے لے کر جاتے ہیں۔ مراکش میں بہت سی تاریخی عمارات، مساجد، میوزیم (یعنی ایسے عجائب گھر جہاں اسلامی تاریخ و ثقافت کو محفوظ کیا گیا ہے) شاپنگ مال اور دیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ کنگڈم آف مراکو کے دیگر شہروں کی طرح یہ شہر بھی قدیم اور جدید کا امتزاج ہے۔ پرانا شہر فصیل کے اندر ہے جہاں آبادی بہت گنجان ہے اور اس فصیل کے مختلف دروازے ہیں بالکل اسی طرح جیسے پرانا لاہور اور اس کے دروازے یا پرانا بہاولپور شہر اور اس کے قدیم دروازے آبادی کے تحفظ کی علامت ہوا کرتے تھے۔ مراکش ساحلی شہر نہیں ہے اس لئے یہاں گرمی کی شدت زیادہ ہوتی ہے ، سردی کے ستائے ہوئے غیر ملکی اس شہر کو پسند کرتے ہیں اب یہاں اونچی اونچی جدید عمارتیں بن گئی ہیں جہاں شاندار اپارٹمنٹس ہر طرح کی سہولت سے مزین ہیں۔ بہت سے غیر ملکیوں نے چھٹیاں گزارنے اور گرمی سے لطف اندوز ہونے کے لئے اپارٹمنٹس خرید رکھے ہیں یہاں بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں کے دفاتراور کاروبار پھل پھول رہے ہیں۔ سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے اس لئے مراکش کنگڈم آف مراکو کا ایک اہم تجارتی مرکز بن گیا ہے۔ ہمارے پاس وقت کم تھا اس لئے ہم نے دوپہر کے بعد مراکش سے رباط واپسی کا قصد کیا اور سرور صاحب کے ساتھ الوداعی گپ شپ کر کے اجازت چاہی۔ مراکش میں دیکھنے کو ابھی بہت کچھ تھا لیکن ہم نے بہت سی دلچسپیوں کو اگلے دورے تک موخر کر دیا۔ یار زندہ صحبت باقی۔ دوپہر کا کھانا ہم نے رباط واپسی کے دوران موٹر وے کی ایک سروس پر رک کر کھایا اور غروب ہوتے ہوئے سورج کے ساتھ دارلحکومت رباط پہنچ گئے۔ رباط آ کر یوں لگا جیسے پرندے واپس اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے ہیں۔ دراصل یہاںاشتیاق بیگ کا اپارٹمنٹ مہمانوں کے لئے ایک طرح کا گوشئہ عافیت ہے۔ یہ اپارٹمنٹ پرانے اور نئے شہر کے سنگم پر ہے اس اپارٹمنٹ کے دریچے سے آپ پرانے اور نئے شہر کا بیک وقت نظارہ کر سکتے ہیں۔ مراکو میں اشتیاق بیگ کو اس لئے بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ ایک تو وہ پاکستان میں کنگڈم آف مراکو کے اعزازی قونصلیٹ جنرل ہیں دوسرا انہیں تقریباً پانچ برس قبل کنگ محمد VIکی طرف سے مراکو کا سول ایوارڈ وِسّان علاوی دیا گیا تھا، یہ ایک بہت ہی معتبر اعزاز ہے۔ یہ اعزاز ایک فریم شدہ سندکی شکل میں اشتیاق بیگ کے اپارٹمنٹ کے اندر داخلی دروازے کے ساتھ دیوار پر آویزاں ہے۔ اشتیاق بیگ نے پاکستان اور مراکو کے درمیان تجارتی اور اقتصادی امور کے فروغ کے لئے جو کام کیا ہے اُسے دونوں ممالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اشتیاق بیگ سماجی اور اقتصادی شعبے میں جس قدر متحرک ہیں اور’ میک اے وش فاؤنڈیشن‘ کے لئے جس طرح سرگرم ہیں اُسے بھی بہت سراہا جاتا ہے۔ رباط پہنچ کر کھانا کھاتے ہی ہم سب کو نیند کی دیوئیوں نے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا۔ اگلے دن ہم سب اُٹھے تو میں اور نسیم صاحب پرانے شہرمدینہ کی فصیل کے اندر ایک مرکزی دروازے کو اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے دیکھ کر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ آج اس پرانے شہر کی سیر و سیاحت ضرور کریں گے۔ ناشتہ کر کے جب ہم اپارٹمنٹ کی لفٹ سے نیچے آئے توفٹ پاتھ پر طرح طرح کی چیزوں کے عارضی سٹال لگے ہوئے تھے ایک جگہ فٹ پاتھ پر نئی اور پرانی کتابیں فروخت ہو رہی تھیں اور ساتھ ہی ایک دکان کے شو کیس میں جوتے فروخت کے لئے سجے ہوئے تھے اس مصرو ف بازار کے کئی چوراہوں پر بوڑھے فقیر بھیک مانگتے ہوئے بھی نظر آ ئے۔ میں اور نسیم صاحب سڑک عبور کر کے پرانے شہر کی فصیل کے اندر داخل ہوئے تو یہاں کا نقشہ ہی مختلف تھا، تنگ بازار، چھوٹی چھوٹی دکانیں جہاں قالین، ہنڈی کرافٹس، عطر، مساج کے لئے خوشبودار تیل، جسم پر لگانے کے لئے خاص قسم کی مٹی اور مرکبات، خطاطی کے نمونے، طغرے، برتن، مسالے، پینٹگز، میوہ جات،پھل، پتھروں سے بنے زیورات، زندہ گھونگوں کا سوپ اور سیکڑوں طرح کی دیگر اشیا فروخت ہو رہی تھیں۔ ابھی دن کا آغاز تھا اس لئے بازار میں گہما گہمی زیادہ نہیں تھی وگرنہ یہاں اس قدر بھیڑہوتی کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ میں نے اور نسیم صاحب نے عطر کی ایک دکان سے عربی پرفیوم خریدے اور کچھ بریسلٹ لئے جن میں مختلف طرح کے پتھر جڑے ہوئے تھے۔ اندرون شہر کے بازار خاصے طویل اور تنگ تھے جب ہم چلتے چلتے سیر چشم ہو گئے تو واپس ہو لئے۔
اگلے دن ناشتے کے بعد ہم نے مراکو کے سب سے بڑے ساحلی شہر اور معاشی مرکز کاسابلانکا جانا تھا۔ اٹلانٹک اوشن یعنی بحرِ اوقیانوش کے کنارے عرب دنیا کا یہ آٹھواں بڑا شہر افریقہ کی سب سے بڑی بندرگاہ بھی ہے اس بے مثال شہر کی تاریخ بہت قدیم اور دلچسپ ہے۔ 18 ویں صدی میں شدید زلزلے نے کاسابلانکا کے اکثریتی حصے کو ملیا میٹ کر دیا مگر پھر اس کی تعمیر نو ہوئی اور اسے دارالبیضا بھی کہا جانے لگا اب یہ شہر جدید اور قدیم طرز تعمیر کا امتزاج ہے۔ مجھے اس شہر کو دیکھنے کی تمنا بہت دیر ینہ تھی، ہم نے فیصلہ کیا کہ رباط سے ٹرین کے ذریعے کاسابلانکا جائیں گے۔ ٹرین سٹیشن ہماری رہائش سے زیادہ دور نہیں تھا۔ یو کے اور یورپ کے مقبول ترین ٹی وی چینل وینس ٹی وی کے چیئرمین اور ہمارے دوست طاہر علی بھی ایک روز پہلے رباط پہنچ چکے تھے وہ بھی اس سفر میں ہمارے ہمراہ تھے ٹرین کا سفر بہت آرام دہ رہا اور ہم تقریباً ڈھائی گھنٹے میں اپنے ہمسفروں سے گپ شپ کرتے ہوئے رباط سے کاسابلانکا پہنچ گئے۔ ٹرین کا سفر مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے، نیویارک سے ٹورانٹو، لندن سے پیرس، ایمسٹرڈیم سے برسلز، کوپن ہیگ سے سٹاک ہوم یا پھر بہاولپور سے لاہور میں نے ٹرین کے سفر کو ہمیشہ انجوائے کیا، انجوائے کا انگریزی لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ اردو میں ایسا کوئی اور پر لطف لفظ مجھے اپنی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے نہیں ملا۔ بہرحال جب ہم کاسابلانکا پہنچے تو سٹیشن کے باہر ڈرائیور کار سمیت ہمارا منتظر تھا جس نے پورا دن ہمیں شہر کی سیر کروانی تھی یہ شہر میوزیم آف مراکن جو دازم یعنی مراکو میں یہودیوں کی تاریخ کے عجائب گھر اور حسن دوم مسجد کی وجہ سے سیاحوں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے چنانچہ ہماری پہلی منزل حسن دوم مسجدتھی اس مسجد کا آدھے سے زیادہ حصہ سمندر میں واقع ہے بحر اوقیانوس کی تلاطم خیز لہریں ہمہ وقت مسجد کے عقبی حصے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔ اس مسجد کے اندر 25 ہزار، صحن میں 80 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے ،اس اعتبار سے یہ دنیا کی تیسری بڑی مسجد ہے اس کی تعمیر کا آغاز 1980 میں اور تکمیل 1993 ء میں ہوئی، اس مسجد کا 210 میٹر بلند مینار شہر کے ہر حصے سے نظر آتا ہے جس پر 60 منزلیں ہیں اس مسجد میں غیر مسلموں کے داخلے کی بھی کوئی ممانعت نہیں۔ اس مسجد میں داخل ہوئے تو مسجد کی بلند و بلا کھڑکیوں کے رنگین شیشوں سے روشنی اندر داخل ہو رہی تھی۔ محرابیں اونچی چھت اور لمبے ستون دیکھ کر دل اللہ اکبر کی گواہی دینے لگا ایک پرسکون خاموشی میں نوافل ادا کر کے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو یوں لگا روح وجد کر رہی ہے ہم سب بہت دیر خاموشی سے یوں ہی بیٹھے رہے اور جب اللہ کے اس گھر سے باہر نکلے تو سمندر کی لہریں اور آبی پرندوں کی آوازوں نے پھر سے احساس دلایا کہ ہم کاسابلانکا میں ہیں۔ ہماری اگلی منزل پرانا شہر یعنی اولڈ مدینہ کی زیارت تھی جہاں گھومنے پھرنے کے بعد ہم شہر کے سب سے خوبصورت ساحل پر پہنچے جہاں انواع و اقسام کے ریستوران اور کافی ہاؤس سیاحوں کی تواضع کر رہے تھے۔ شام ڈھل چکی تھی اور ہم نے رات سے پہلے واپس رباط پہنچنا تھا چنانچہ ہم نے مراکو کا روایتی کھانا کھانے کے بعد دارلحکومت کی طرف واپسی کے لئے رختِ سفر باندھ لیا۔
ویسے ہماری بڑی خواہش تھی کہ رباط میں چیلاہ ،حسن ٹاور،تاریخی باغات اور عمارات دیکھنے کے لئے جائیں بلکہ مراکو کا ایک اہم شہر فیز یا فیض بھی دیکھیں لیکن ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اور میرے دل میں ایک تمنا یہ بھی تھی کہ کچھ مقامات دیکھنے کی طلب باقی رہنی چاہئے تاکہ دوبارہ مراکو آنے کا جواز باقی رہے۔مراکو بلاشبہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک بار آنے والا بار بار آنے کی خواہش کرتا ہے۔یہاں کا موسم ، صحرا، سمندر ،تہذیب ،ثقافت ،خوراک اور سب سے بڑھ کر یہاں کے ملنسار اور مہمان نواز لوگوں کی کشش آپکو شمالی افریقہ کے اس اہم تاریخی ملک میں آنے پر مجبور کرتی ہے۔یورپ میں رہنے والے سردی کے مارے اور بے مروتی کے ستائے ہوئے لوگ جب ایک مرتبہ کنگڈم آف مراکو کے موسم اور مروت کا مزا ٹھا لیتے ہیں تو اُن کے دل میں اس ملک کے لئے احترام کی شمع روشن ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ فاسفیٹ کی ایکسپورٹ کے بعد ٹورازم یعنی سیاحت کنگڈم آف مراکو کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے۔ واپسی سے پہلے میں اشتیاق بیگ سے یہ ضرور معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آ خر مراکش میں ایسی کونسی کشش ہے کہ اب یہاں خوشحال پاکستانی کثرت سے آنے لگے ہیں۔اشتیاق بیگ نے اس کے دو اسباب بتائے۔وہ کہنے لگے ایک وجہ تو یہ ہے کہ جب سے میں پاکستان میں کنگڈم آف مراکو کا اعزازی قونصل جنرل بنا ہوں میں ہر سال مراکو ثقافت کو پاکستان میں متعارف کرانے کے لئے فوڈ اور میوزک فیسٹیول کا اہتمام کراتا ہوں،کنگ محمد کی تاجپوشی کے حوالے سے تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کی پاکستانی میڈیا میں بڑے پیمانے پر کوریج ہوتی ہے، اسی لئے پاکستانی لوگ مراکو آنے میں دلچسپی لینے لگے ہیں،دوسری وجہ اشتیاق بیگ نے یہ بتائی کہ ۱۹۵۶ء کے آغاز میں فرانس کے آزادی کے موقع پر جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مراکو کے شاہ کی طرف سے بھیجے گئے تحریک آزادی کے لیڈر احمد بلفرج کو خطاب کی اجازت نہ دی گئی کیونکہ فرانس کا اس وقت بھی یہ دعوی تھا کہ مراکو فرانس کی کالونی ہے تو اسوقت کے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے اسی روز احمد بلفرج کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا اور یوں مراکو کے اس لیڈر کو اگلے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے اور فرانسیسی تسلط سے مکمل آزادی کے لئے آواز بلند کرنے کا موقع ملا،اس خطاب کے بعد مراکو میں تحریک آزادی نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور اسی سال مراکو اقوام متحدہ کا رکن بنا اور احمد بلفرج کنگڈم آف مراکو کے پہلے وزیر اعظم بنے اور انہوں کے پاکستان کے احسان کو ہمیشہ یاد رکھا اور پاکستان کے پاسپورٹ کو اپنے دفتر میں نمایاں جگہ پر ایک یادگار کے طور پر آویزاں کیا۔اشتیاق بیگ کہنے لگے کہ یہی وجہ ہے کہ مراکو میں پاکستانیوں کا احترام کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستانی یہاں آکر خود کو بہت آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔اشتیاق بیگ کی زبانی اس تاریخی حقیقت کا انکشاف واقعی ہمارے لئے بھی دلچسپ تھا۔اشتیاق بیگ سے اجازت لے کر ہم رخصت ہوئے۔ڈرائیور ہمیں رباط کے ہوائی اڈے پر لے جانے لے لئے ہمارا سامان گاڑی میں رکھ چکاتھا ہم اس شہر کی خوبصورت عمارتوں کو الوداعی نظروں سے دیکھتے اور شاندار شاہراہوں سے گزرتے ہوئے ۳۰ منٹ میں ہوائی اڈے پر پہنچ گئے جہاں امیگریشن سے فارغ ہو کر ہم مسافر گاہ میں جابیٹھے سامنے ہی ائیر مراک کا آرام دہ جہاز ہمیں واپس لندن لانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔
٭٭٭

Exit mobile version