Tarjuman-e-Mashriq

بات بڑی سادہ ہے، مشکل الفاظ اور نامانوس اصطلاحات میں پڑے بغیر یہ سمجھ لیجئے کہ اب جنگیں لڑنے کا  انداز  بدل گیا ہے۔ آج کا دور ہائبرڈ وار فئیر میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس جنگ کو جیتنے کے لئے ریاستیں اپنے مخالفین کے خلاف سپیشل فورس ’ریگولر ملٹری فورس‘ اکنامک وار فئیر ’سائبر اٹیکس‘ ڈپلو میسی ’انفارمیشن وار فئیرپروپیگنڈا‘ سپورٹ آف لوکل ان ریسٹ جیسے طریقے استعمال کرتے ہوئے جیتنے کی کوشش کر رہی ہیں-اس ہائبرڈ وار فئیر میں بظاہر نظر آنیوالی متحارب قوتوں سے ہٹ کر کچھ پس پردہ قوتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو زیادہ متحرک اورموثر ہوتی ہیں اور یہ نادیدہ قوتیں جنگوں کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انہی نادیدہ قوتوں نے اقوام عالم پر اپنی حکمرانی قائم کرنے اور اپنے مفادات کے حصول کے لئے دنیا کو ہائبرڈ وار فئیر میں لا کھڑا کیا ہے۔ فوجیں بھیجنے کی بجائے زیرنشانہ ملک کے شہریوں کو اپنی ہی ریاست اور فوج کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا جب جنگوں میں دونوں طرف کے انسان آمنے سامنے رہ کر تلواروں سے لڑا کرتے تھے تو اس کو فرسٹ جنریشن وار کہتے تھے۔ پھر جب بندوق اور توپیں ایجاد ہوئیں اور اس کے ذریعے جنگیں لڑی جانے لگیں تو ان جنگوں کو سیکنڈ جنریشن وار کہا جانے لگا۔ جب جنگوں میں فضائیہ اور نیوی وغیرہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہوئی یا میزائلوں کے ذریعے دور سے دشمن پر وار کرنے کا راستہ نکلا تو اس کو تھرڈ جنریشن وار کا نام دے دیا گیا- جب افواج کے ساتھ ساتھ نان اسٹیٹ ایکٹرز کا کردار اورمقامی شرپسند عناصر اور پراکسیز کا کردار بھی اہم بن گیا اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ ساتھ سفارت کاری، معیشت اور پروپیگنڈے کے ہتھیار بھی شامل ہوگئے.تو اس جنگ کو فورتھ جنریشن وار کے نام سے منسوب کر دیا گیا.

ففتھ جنریشن وار کے متعلق ایک کہاوت بہت مشہور ہے "یہ وہ جنگ ہے جسے جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے لڑا ہی نہ جائے”. ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح ڈیوڈ ایکس نے 2009 میں امریکی میگزین وائرڈ پر اپنے ایک کالم میں دی.ففتھ جنریشن وار کی سادہ الفاظ میں تعریف یہ ہے کہ اس میں پوری قوم شریک ہوتی ہے. اس میں بیٹل یعنی ایک دوسرے کے سامنے لڑنے کی نوبت نہیں آتی-

ہمارے ہاں یہ رسم رائج رہی ہے کہ اگر کوئی شخص اس قسم کے خطرے سے خبردار کرنے لگے تو اس کی بات کو یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ” یہ ایک کانسیپریسی تھیوری ہے ” – ففتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ یار لوگ اسے پڑھنے، سوچنے اور سمجھنے اور اس پر کان دھرنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کرتے چونکہ پرواسٹیبلشمنٹ قوتیں اس اصطلاح کو استعمال کر رہی ہیں تو یہ باقیوں کے لئے کافی ہے کہ بلاسوچے سمجھے اس کی مخالفت کریں۔ انہیں یہ خیال نہیں کہ اس کا ہدف اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور قوت نہیں بلکہ ملک یعنی ریاست ہے۔

پاکستان پر دشمن قوتوں کی جانب سے مسلط کی گئی اس ہائبرڈ وار فئیر کا نشانہ پاکستان کی معشیت ’سی پیک‘ عوام ’حکومت اور ریاستی ادارے ہیں ظاہری اور نادیدہ دشمن قوتیں پاکستان کی حکومت اور اداروں کو غیر مستحکم کرنے پر تلی ہوئی ہیں- ایسی مذموم کوششیں ماضی بعید اور قریب میں بھی کی گئی اور اب دشمن اور اس کے پس پردہ قوتیں پوری طاقت کے ساتھ ہائبرڈ وار فئیر کے آلات حرب سے لیس ہو کر حملہ آور ہو چکی ہیں ان قوتوں کا ایک ہی مقصد ہے کہ چند غداران وطن کے ہاتھوں عوام ’حکومت اور ریاستی اداروں کو ایکدوسرے کے خلاف کھڑا کر کے نفرت کی ایک ایسی خلیج قائم کر دی جائے جس کا یہ ملک متحمل نہ ہو سکے۔ یہ بات بیشتر اوقات میں اپنے کالموں میں دوہرا چکا ہوں کہ پاکستانی عوام اپنی بہادر مسلح افواج سے دلی محبت کرتے ہیں، پاک افواج اور عوام نے پہلے بھی دشمن کے بہت سے وار کو سہہ کر ہمیشہ بھر پور جواب دیا جس کا دشمن کو بخوبی ادراک بھی ہے-

کابل میں موجود بھارتی سفارتخانہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتاہے جس کی آڈیو لیک تصدیق ہو چکی ہے انڈین آرمی کے کرنل راجیش جیسے جانے کتنے اور لوگ ہمارے ملک کے خلاف متحرک ہیں کلبھوشن جیسا حاضر سروس کمانڈر میدان میں اْتارنا پاکستان کو توڑنے کے لیے بھارتی بے چینی کا بین ثبوت ہے سی پیک سیل کی سربراہی کے ساتھ مودی ہر پاکستان مخالف کارروائی کی سرپرستی کرتا ہے لال قلعے کی تقریر میں وہ خبثِ باطن کااظہار کر چکا کہ کشمیر میں جاری تحریک کا بلوچستان میں جواب دیا جائے گا قومی سلامتی کا مشیر اجیت دوول بھی کہہ چکا کہ بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والوں سے نا صرف اپنی زمین پر لڑاجائے گا بلکہ یہ جنگ اْن ملکوں تک لے جائیں گے جہاں سے خطرات جنم لے رہے ہیں۔پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے دشمن اپنی تمام تر چالوں کے ساتھ اس ارض پاک کے سر پر آن کھڑا ہے لیکن دشمن کو ادراک ہو جانا چاہیے کہ پوری قوم‘ حکومت، پاکستان کی مسلح افواج اور ہمارے ادارے دشمن کی ایک ہلکی سی ناپاک جنبش کا دندان شکن جواب دینے کے لئے پوری طرح منظم، چوکس اور متحد ہیں۔

 

Exit mobile version