اگرچہ زمانے کے ساتھ ساتھ ادبی رجحانات اور اظہار کے قرینوں میں بھی تبدیلیاں آتی رہی ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ شاعر ادیب کی جگہ غیر شاعر ادیب لے لے گا اور تخلیقی ادب کی جگہ مصنوعی ادب ۔ میری مجبوری ہے کہ مجھے بار بار بتانا ہے کہ شعری احساس اور فکری تشکیل پر تلازمہ کاری وغیرہ اور صناٸع بداٸع کو فوقیت دینا یا تخلیق کار پر متن کو ترجیح دینا دراصل ان کمزور شاعر ، ادیب ، ناقدین اور نام نہاد محقیقین کی مجبوری ہے جن کو اپنی تخلیقی محرومی کا شدید احساس ہے اور وہ اسے قبول کرنے کی بجاۓ خود کو تخلیق کار سے افضل دیکھنے کے خبط میں مبتلا ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل تخلیقی عمل اور تخلیق کار کی نفی کرنے پر تلے رہتے ہیں کیونکہ انہیں ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان کی موت لازم ہے جبکہ حقیقی تخلیق کار کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ خود کو نمایاں کرنے اور دوسروں کو پیچھے دھکیلنے کی منصوبہ بندیاں کرتا پھرے ، بلکہ اس کے پاس تو دوران عمل تخلیق فنی لوازمات پر توجہ مرکوز کرنے کی بھی مہلت نہیں ہوتی ۔ البتہ یہ درست ہے کہ تخلیق کے بعد اسے نظر ثانی کرکے کمی بیشی دیکھ لینی چاہٸیے اور عام طور پر بڑے تخلیق کار ایسا کرتے بھی ہیں ۔ احمد نواز کی شاعری پر بات کرتے ہوٸے مجھے ایسی تمہید اس لیے باندھنا پڑی کہ احمد نواز شاعر پیدا ہوا ہے ۔ وہ ماحول صحبت یا شوق کی بنیاد پر شاعر بننے والوں سے مختلف ہے ۔ احمد نواز کاٸنات کو ایک شاعر کے دل سے محسوس کرتا ہے اور ایک فلسفی کے دماغ سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہ ایک نایاب امر ہے کہ وہ ایک فلسفی کے طور پر سوچنے کے باوجود اپنی شاعری میں کہیں بھی اپنے اندر کے فلسفی کو حاوی نہیں ہونے دیتا ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر پیدا ہونے والے سوالات یا غور و فکر کے نتیجے میں حاصل ہونے والے جوابات جب شعر کی صورت میں ڈھلتے ہیں تو جذبے اور احساس کی جمالیات پوری شعری آب و تاب کے ساتھ غالب نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی ذات کے زریعے قدرت ِ مطلقہ اور مظاہر فطرت سے ہمکلام ہونے کی صفت اسے عہد حاضر کے ان تمام شعراء سے مختلف بنا دیتی ہے جو شعر کے خارجی سٹرکچر پر محنت کرتے رہتے ہیں اور صرف لسانی و فنی خوبیوں کی بنیاد پر اسے اچھی یا اعلیٰ شاعری قرار دے دیتے ہیں ۔ یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک شاعر کے لیے پہلے سے موجود کسی فلسفیانہ نظریے کی بنیاد پر عمارت کھڑی کرنا اگرچہ بہت قابل قدر بات ہے لیکن شاعر کا کاٸنات کے اسرار کو سمجھنے اور وجدانی بنیادوں پر اس کے جواب تلاش کرنے کا عمل اس کے بڑے شاعر ہونے کی دلیل مہیاء کرتا ہے اور ایسے میں اگر شاعر اپنے وجدان ، ادراک اور کاٸناتی شعور کی بنیاد پر کوٸی نظریہ ڈویلپ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس نظریہ سازی کی بنیاد پر اس کے عظیم اور بڑے شاعر ہونے میں کوٸی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔
اب تک میں احمد نواز کی شاعری کا جتنا مطالعہ کر چکا ہوں اس میں وہ حیرت انگیز طور پر شعریت کے عنصر کو ساتھ رکھتے ہوۓ ایسے سوالات اٹھاتا ہے جو پڑھنے والے کو بڑے غیر محسوس طریقے سے سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجٸیے
کبھی کبھی مجھے تیرا گمان ہوتا ہے
کبھی کبھی مجھے اپنا یقیں نہیں رہتا
تو کون ہے مجھے چلمن سے جھانکنے والا
اگر مکان میں کوئی مکیں نہیں رہتا
یہاں وہاں میری پرچھائیوں کے مسکن ہیں
وگرنہ میں کہیں اپنے تئیں نہیں رہتا
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ وہ حقیقیت مطلق کی تلاش کے سفر میں آرزو کی ریاضت اور دریافت کے جس عمل سے گزرتا ہے اس سے بخوبی آگاہ بھی ہے ۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ عام طور پر وجدانی واردات سے گزرنے والے صوفیاء اور سینٹ جب روحانی یا قلبی واردات کے عمل سے باہر آتے ہیں تو واردات کے بیان سے قاصر ہوتے ہیں جبکہ احمد نواز اپنے وجدانی تجربے کے تمام مراحل سے آگاہ رہتا ہے ۔ جس کی جو وجہ مجھے سمجھ آ ٸی ہے وہ یہ ہے کہ احمد نواز ایک صاحب ایمان و عقیدہ انسان اور ایک ساٸینسی تجسس رکھنے والا ایسا شاعر ہے جو پس ِکاٸنات سرگرمِ عمل قوتوں کے انکشاف کی جستجو کو علم اور ایمان کے درمیان توازن کے ساتھ لے کر آگے بڑھتا ہے اور اس پورے فکری اور احساساتی بیانیے کو ایک مربوط شعری سانچے میں ڈھالتا چلا جاتا ہے ۔۔ شعر دیکھٸیے
ازل سے پردہ نشیں کی تلاش جاری ہے
گماں کے ہاتھوں یقیں کی تراش جاری ہے
تشکیک مابعدالطبیعاتی فلسفے کا بنیادی جُز اور گمان سے یقین تک پہنچنے کے عمل میں ناگزیر ہے ۔ احمد نواز کی شاعری میں بہت اہم بات یہ ہے کہ ایک صاحب ِ ایمان شاعر ہونے کے باعث اس کا گمان اس کے عقیدے سے متعلق شکوک و شبہات کا نام نہیں بلکہ ایک صاحب ِ فکر و نظر انسان کا ایمان کی حقانیت کے مشاہدے اور تجربے سے خود گزرنے کا عمل ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کو یقین ہو کہ خدا ہے لیکن وہ خدا کو خود ، دیکھنا ، محسوس کرنا اور پانا چاہتا ہوں ۔ یقین ِ کامل کے حصول کی تمنا شاعر کے اندر انسانی آنکھ سے ماورا کسی ایسی آنکھ کے حصول کے لیے مضطرب ہے جو وہ کچھ دکھا دے جو ظاہری آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں ۔
آٹھواں رنگ دیکھنے کے لیے
تیسری آنکھ ڈھونڈتا ہوں میں ۔
احمد نواز کے تخلیقی نظام میں تشکیک اور غور و فکر کا عمل احساس کی صداقت اور جذبے کی معاونت سے وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ یہی امتیاز اسے فلسفی شاعر کی بجاۓ شاعر فلسفی کے رتبے پر فاٸز کرتا ہے ۔
اشعار ملاحظہ فرمائیے
سوز کو ساز کیا, وَجد کو وِجدان کیا
دل کو دالان کیا, یار کو مہمان کیا
حُجرہءِ جسم میں معمول کا سنّاٹا تھا
پھر کسی لمس کی آواز نے حیران کیا
دے دیا تیرے تصوّر کے تصرّف میں یہ دل
شمع فانُوس ہوئی, گُل کو گُلِستان کیا
ندرت ِ خیال کی کمیاب و نایاب مثال دیکھٸیے کہ صداۓ کُن کا باطن میں گونجنا اور لمس کی آواز کو متشکل کرنا ایک ایسے حیرت کدہ کی کاٸنات کو تشکیل دینا ہے جو اس کی اپنی ریاضت کا ثمر ہے ۔ اس ریاضت کا ثمر جو اس کے اندر کُن کی صدا گونجنے سے پہلے جاری و ساری تھی ۔
حجرہءجسم میں معمول کا سناٹا تھا
پھر کسی لمس کی آواز نے حیران کیا
یہ بالکل ماں کے پیٹ میں بچے کے بیج سے وجود کی شکل میں آنے جیسا ہے ۔ بطور ادراکی نقاد میرے لیے عمل تخلیق کو سمجھنے اور سمجھانے کلیے یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ شعر کی تخلیق ، تخلیق ِ کاٸنات اور تخلیق ِ انسان سے ملتا جلتا عمل ہے ۔ جس میں آسانی یہ ہے کہ انسانی ذہن بچے کی تخلیق کے عمل اور شعر کی تخلیق کے عمل تک رساٸی حاصل کرسکتا ہے لیکن تخلیق ِ کاٸنات کے عمل ، صداٸے کُن یا بِگ بینگ سے پہلے کے اسرار تک پہنچنا ابھی اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ خالق ِ کاٸنات تک ۔ اگر یہ کہیں ممکن نظر بھی آیا ہے تو فقط ان الہامی ہستیوں کے ہاں جن کو انبیاء ، آٸمہ ، اولیاء ، صوفیاء یا شعراء کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اگر ہم ان کے الہامات کو مفروضہ قرار دیں تو پھر بھی ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ فلسفہ اور ساٸنس دونوں کی اپنی بنیاد بھی hypothesis یعنی مفروضے پر قاٸم ہے ۔
احمد نواز کی شاعری میں روحانی واردات کے شواہد جگہ جگہ ملتے ہیں اور خوش آٸیند بات یہ ہے کہ وہ اپنی روحانی واردات کے تجربے سے گزرنے کی حالت کو یاد رکھتا ہے بلکہ انہیں پوری شدت ِ احساس کے ساتھ شعر کرنے کے ہنر سے مالامال بھی ہے ۔ اشعار دیکھٸیے
خِرَد کے زینے پہ چڑھ رہا ہوں
خود اپنی جانب کو بڑھ رہا ہوں
میں حیرتِ حال میں اُتر کر
خدا کی تاریخ پڑھ رہا ہوں
پتہ نہیں مجھے کیوں لگتا ہے کہ موت نظام فطرت کا ایک ایسا پراسرار معمہ ہے جسے ابھی تک ٹھیک سے سمجھا نہیں جا سکا ۔ یہی موت جس کے خوف سے شاہ و شداد پانی ہوتے اور خواص و عوام بھاگتے پھرتے ہیں عاشق اسے آگے بڑھ کر گلے سے لگانے کے لیے بے چین رہتا ہے ۔ موت کے حوالے سے احمد نواز کی شاعری میں چہار سمتی احساسات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ایک مربوط فکر بھی نظر آتی ہے ۔
درد مسافر ہوجاٸیں گے
آخر ہم بھی سوجاٸیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نہ ہوتا جو ماوراٸے نظر
آنکھ بے موت مر گٸی ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔
بے نیازا ! ترا بَرزَخ رہے آباد ، مگر
اِک اِسی شخص کے ہونے سے تھی دنیا میری
۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد نواز کی مربوط فکر دراصل اس کے مربوط احساساتی اور روحانی تجربے سے جنم لیتی ہے ۔ وہ عاشق ہے ، جس کی واردات عشق مجاز سے حقیقت تک پھیلی ہوٸی صاف محسوس کی جا سکتی ہے ۔ ہجر اس کی ریاضت اور آنسو اس کے لیےشفاعت کے وسیلے کا باعث ہیں ۔ یہاں تک کہ اس کے لیے اس کی محرومیاں اور دکھ بھی قابل احترام اور دولت کی طرح ہیں ۔ اسے مشکلوں کی آسانی اور آسانیوں کی مشکلوں کا ادراک ہے ۔ وہ ایسا تارک الدنیا ہے جو دنیا میں رہ کر اسے مسلسل ٹھکراتے چلے جانے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔
میں ترکِ آرزو سے بچ گیا ہوں
بڑی مشکل سے آسانی ٹلی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے معمول کی حاجات نہ روئی جائیں
مانگنے پر کبھی آئیں تو جُدا مانگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
تُو کبھی دے نہ سکا مجھ کو خُوشی کے آنسُو
میں نے سب کچھ تری مُسکان پہ قربان کیا
زندہ رہنے کا ہنر آ گیا آتے آتے
زخم کو پھول کیا, درد کو درمان کیا
مسئلہ ہجر کا پیچیدہ بہت تھا احمد
کلیہ ء صبر نے قدرے اسے آسان کیا
۔۔۔۔۔۔
اب ذرا درج ذیل شعر دیکھٸیے
کچھ نہ ہوتا جو ماوراۓ نظر
آنکھ بے موت مرگٸی ہوتی
یہ ایسا شعر ہے جو ہمیں احمد نواز کی فکری اساس کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں کمزور اور سرقہ باز شاعروں نے ایک دوسرے کے اشعار کے مضامین چوری کرنے کے عمل کو درست قرار دینے کے لیے طرح طرح کی تاویلیں گھڑ کے جہالت پھیلانے کی بہت کوشش کی ہیں اور مثالیں کلاسیکی استاد شعراء کی پیش کرتے ہیں ۔ کسی تجربے کی مماثلت سے اور زبان کی تنگ دامانی سے کہیں کہیں شعراء کے ہاں خیالات کا مل جانا ایک فطری عمل ہے لیکن کسی کے شعر کو سامنے رکھ کے شعر گھڑنا تو صریحاً غیر اخلاقی ، غیر ادبی عمل ہے بلکہ باقاعدہ جرم ہے ۔ چہ جاٸیکہ اسے پوری ڈھٹاٸی سے درست بھی قرار دیا جاۓ ۔ ایسے چلنتر اور مصنوعی شعراء عموماً یہ کہتے بھی پاۓ گٸے ہیں کہ دنیا میں کوٸی خیال نیا خیال نہیں ہوتا ۔ یہ علم دشمنی پر مبنی ایسا جاہلانہ مذاق ہے جسے اگر مان لیا جاۓ تو ارسطو سے ایلیٹ اور ہومر سے اقبال تک کی نفی کرنا پڑ جاۓ گی ۔ اسی ضمن میں ہمارے آج کے تازہ فکر اور منفرد اسلوب کے شاعر احمد نواز کے ہاں قدم قدم پر مضامین ِ نو کے انبار لگے ہیں ۔
مضامین دراصل انسان کے جذباتی عمل کی گہراٸی ، زندگی کی بوقلمونی اور علمی وسعت کی دین ہوا کرتے ہیں اور ایک خالص شاعر کے لیے یا کسی بھی تخلیقی انسان اور فنکار کے لیے
دنیاوی آلاٸیشوں سے دوری اور اپنے من کی کاٸنات میں ڈوبے رہنے پر راضی ہونے کا کردار اسے دوسروں سے خیال سے لیکر اظہار تک کی ہر سطح پر مختلف بھی بناتا ہے اور نٸے سے نٸے مضامین کی دولت سے بھی نوازتا چلا جاتا ہے ۔
یعنی
کچھ نہ ہوتا جو ماوراۓ نظر
آنکھ بے موت مر گٸی ہوتی
کسی بھی دیدہءبینا کے لیے قابل توجہ ہے ہی وہی جو ماوراۓ نظر ہے اور جسے دیکھنے کے لیے اسے عشق کی بےقراری اور ہجر کے دکھ سے بھرے ہوۓ دل کی آنکھ درکا ہے ۔ کاٸنات اور خالق ِ کاٸنات کا ماوراۓ نظر رنگ دیکھنے کے لیے دو آنکھوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ میں نے اس شعر کو اس کے تخلیقی ادراک کی کلید اس لیے قرار دیا ہے کہ واردات ِ قلبی و روحانی احمد نواز کے ہاں صرف احساسات اور جذبات کے بیان تک رُک نہیں جاتی بلکہ حقیقت ِ مطلق کے مشاہدے کی آرزو کے لیے زریعے کی تلاش پر مسلسل مصر نظر آتی ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ احمد نواز تلاش کے اس سفر کو خارجی اور باطنی تجسس کے توازن سے لیکر چلتا ہے جو اسے محض صوفی یا محض فلسفی نہیں رہنے دیتا ۔
احمد نواز کی شاعری میں عصری شعور کا بیان ، سیاسی و سماجی زوال اور انسان کے غیر ذمہ دارانہ کردار پر اظہار بھی اتنا ہی واشگاف ہے جتنا کہ داخلی زخموں کا نوحہ ۔
درج ذیل غزلوں کا ایک ایک شعر مختلف مضامین کا احاطہ کیے ہوۓ ہے۔ ایک ہی غزل میں تصوف بھی ہے ، انسان اور معاشرے کے درمیان پیدا ہونے والے عدم توازن کی نفسیاتی تعبیر بھی ہے اور طبقاتی تفریق سے بھرا سیاسی شعور بھی لیکن کسی بھی شعر میں شعریت کی شدت میں کمی نہیں آٸی ۔ احمد نواز کی شاعری میں سب سے زیادہ متاثر کُن عمل یہی ہے کہ اس کی شاعری ساٸنسی موضوع پر اظہار میں کہیں سٹیٹمینٹل ہوتی دکھاٸی نہیں دیتی ۔ میرا ہمیشہ سے یہ نقطہءنظر رہا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوٸی بھی جینوٸن تخلیقکار ترقی پسند نہ ہو ۔ ہر صاحب ِ جمال اسی لیے صاحب ِ جمال ہوتا ہے کہ وہ خارجی کثافتوں سے خود کو آلودہ نہیں ہونے دیتا ۔ خارج اور باطن کے درمیان جذباتی و فکری تصادم ہی تخلیقکار کی فکر و نظر کے دروازے کھولتا ہے ۔ تخلیق کار جتنا بڑا تصادم جھیلنے کی ہمت رکھتا ہوگا اتنا بڑا تخلیقکار ہوگا ۔ احمد نواز کی شاعری میں معاشرتی ناہمواری اور انسانی بےتکریمی کے بین سناٸی دیتے ہیں ۔ حتٰی کہ اسے اپنے ارد گرد برپا ہونے والے المیے اپنے المیے محسوس ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری کو کسی ایک خانے میں فٹ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ آفاقیت اور ہمہ گیریت اس کی شاعری کےایسے اوصاف ہیں جو اس کے کینوس کے پھیلاٶ کو کناروں کی محتاجی سے صاف بچا کے لےجاتے ہیں ۔
ہجر کو یار کا اوتار بنا رکھّا ہے
اُس کی ہر یاد کو تہوار بنا رکھّا ہے
مُجھ میں اک خوف زدہ شخص ہے ایسا جس نے
میرے ہر کام کو دشوار بنا رکھا ہے
اُس کو بتلاؤ قناعت کی دوائی کھائے
جس کو بُہتات نے بیمار بنا رکھا ہے
جب سے کم مائیگیِ لفظ کھُلی ہے مجھ پر
خامشی کو رہِ گفتار بنا رکھا ہے
بے نیازی بھی ادا اس کی ہے جس نے اپنا
اک زمانے کو طلب گار بنا رکھا ہے
اپنے پاؤں سے کُچلتے ہیں وہی سر اِن کے
جن کو جمہور نے سرکار بنا رکھا ہے
دیکھنے والے کو فن کار بنا دے، احمد
تُو نے ایسا کوئی شہکار بنا رکھا ہے ؟
…….
خلقت کی اذیّت کو مٹا کیوں نہیں دیتے
اس کھیل پہ اب پردہ گرا کیوں نہیں دیتے
زردار سے نفرت ہے مگر زر سے محبت
سچے ہو تو یہ فرق مٹا کیوں نہیں دیتے
اک بوند کو جنموں سے ترستے ہوئے پیاسو!
دریاؤں کو اب آگ لگا کیوں نہیں دیتے
لازم ہے فلک نیلا نظر آئے ہمیشہ ؟
منظر کو کوئی رنگ نیا کیوں نہیں دیتے
انسان کا اکرام ہے اکرامِ الٰہی
اس بات کو تم دل میں جگہ کیوں نہیں دیتے
کیوں رسم کی ڈوری سے انہیں باندھ رکھا ہے
بے زار پرندوں کو اڑا کیوں نہیں دیتے
لوٹانے ہیں تم نے مرے ایّامِ جوانی
یہ قرض مری جان چکا کیوں نہیں دیتے
جُز حسرت و آزار نہیں کچھ بھی مرے پاس
لاچار کو مرنے کی دعا کیوں نہیں دیتے
ہونٹوں پہ ہے کچھ, آنکھوں سے کچھ اور عیاں ہے
جو بات ہے دراصل بتا کیوں نہیں دیتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل کے اتنے طویل اور جاندار سفر کے باوجود بھی نٸے امکانات کے در کبھی بند نہیں ہوۓ ۔ آج بھی جب ہر طرف سے ایک جیسی شاعری کا شور برپا ہے اس میں احمد نواز کی شاعری غزل کو اعتبار بخشتی نظر آتی ہے ۔ اردو ادب کو مبارک ہو کے اسے ، مربوط فکر ، جذبوں کی آنچ میں سلگتا اور احساس کی شدت سے دمکتا ایک ایسا ہمہ گیر شاعر نصیب ہوا ہے جو اردو ادب کے معتبر آٸندہ کی نوید ہے ۔