فارسی کی یہ ضرب المثل شاید ہمارے حکمران طبقے کے لئے ہی کہی گئی تھی کہ بدنیت کے لیے ہزاروں بہانے موجود ہوتے ہیں۔ مریم نواز کا فرمان ہے کہ چچا جی بحران پیدا کرو اور حکومت کرتے رہو اس قوم کا یہی علاج ہے۔ آپ پیٹرول کی قیمتیں بڑھاتے رہیں میں آپ کے خلاف بیان دیتی رہونگی۔ پچھلے دنوں ایک انگریز خاتون ٹیچر کی وفات ہوئی۔ اخبار والوں نے لکھا کہ خاتون ٹیچر اعزاز یافتہ تھیں کہ بینظیر بھٹو اور مریم نواز دونوں کی استاد رہیں۔ لکھنے والے بھول جاتے ہیں کہ استاد ساری کلاس کو ہوتا ہے صرف ایک طالب علم کا نہیں۔ اخباری بیان پڑھ کر مجھے مشہور یونانی فلاسفر اور اُستاد دیو جانسن یاد آگیا۔ ایک دن دھوپ سے لطف اندوز ہو رہا تھاکہ سکندر اعظم فاتح عالم گھوڑا دوڑاتا ہوا آیا اور جانسن کے سامنے باادب کھڑا ہوگیا۔ کہنے لگا حضور آپ کا یہ ادنیٰ طالب علم بادشاہ بن گیا ہے حکم کریں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ دیو جانسن نے اوپر دیکھا اور کہا تمہارے بادشاہ بننے کی مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ فی الحال سامنے سے ہٹ جاؤ اور مجھے دھوپ لگنے دو۔
دیوجانسن کا ہی ایک شاگرد بڑا جاگیردار اوریونان کے اُمرأمیں شامل تھا۔ اُس نے سنگ مرمر کا عالیشان محل تعمیر کروایا۔ سارے یونان میں اس محل کی خوبصورتی کا چرچا ہوا تو ملک کے نامور لوگ محل دیکھنے آئے مگر دیوجانسن نہ آیا۔ جاگیردار اُستاد کی خدمت میں حاضر ہو ااور منت سماجت کے بعد اُسے محل دکھانے لے آیا۔ دیوجانسن بوڑھا تھا۔ اور کھانسی کے مرضی میں مبتلا تھا۔ محل دیکھنے کے دوران اسے کھانسی کا دورا پڑاتو اُس نے بلغم جاگیردار کے منہ پر تھوک دی۔ جاگیردار نے غصے سے وجہ پوچھی تو اُس نے کہا کہ اتنے خوبصورت اور عالیشان محل میں تیرے چہر ے کے سوا مجھے کوئی گندی جگہ نظر نہ آئی جہاں تھوکتا۔ دیوجانسن نے کہا کتابیں پڑھنے سے کردار نہیں بنتا کردارکے لئے تربیت ضرور ی ہے۔ تمہاری تربیت جاگیردارنہ ماحول میں ہوئی جہاں صرف ظلم و جبر اور عام لوگوں کے استحصال کی تربیت دی جاتی ہے۔ تمہارے محل میں مجھے غلاموں کی سکیاں اور مظلوموں کی آئیں سنائی دیں۔ تمہارے گناہوں کی بدبو میرے پھپھڑوں میں چلی گئی تو کھانسی کا دوڑا پڑا۔ پتہ نہیں جاتی عمرا، بلاول ہاؤس اورایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں کتنے مظلوموں کے خون پسینے کی کمائی لگی ہوئی ہے۔ مگر باجود اس کے ہماری عدلیہ اور پس پردہ ملک کا نظام چلانے والوں کی دیکھنے، سننے اور سونگھنے کی حس ختم ہوچکی ہے۔
مشہور حدیث ہے کہ ہر عمل کا دارمدار نیت پر ہے۔ بد نیت شخص کبھی بھی عمل صالح کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں۔
عاقبت گرگ ذادہ گرگ شود
گرچہ با صحبت آدمی بزرگ شود
بھیڑئے کا بچہ بھیڑیا ہی رہتا ہے اگرچہ اُس کی پرورش انسانوں کے درمیان ہی کیوں نہ ہو۔ یونانی فلاسفہ کسی دین پر تونہ تھے مگر اُن کے پاس گزشتہ اُمتوں اورنبیوں کا علم موجود تھا۔ وہ فلسفے اور حکمت کی باتیں کرتے تھے مگر کسی چیز کے موجد اور محقق نہ تھے۔ وہ لوگ جو قوموں اور ملکوں کی قیادت کرتے ہیں ضروری ہے کہ وہ کسی نظیرے کے پیروکار ہوں تا کہ وہ عام لوگوں کی ترقی، خوشحالی، عزت، و حفاظت اور عمل ور کردار کی رائیں متعین کر سکیں۔ بد نیت اور بدخو کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو وہ درحقیقت نفس امارہ کی نشے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ شیطان رہبر بن کر ہمیشہ کے لیے اُسے حق کے راستے سے ہٹا دیتا ہے۔ جھوٹ، مکر و فریب، چکمہ، چالبازی ایسے لوگوں کے ہتھیار اور دھوکہ دہی اُن کی ڈھال ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں عالمی سطح پر ایسے ذہن ساز ادارے اور اشخاص موجود ہیں جو دیگر دنیا خاص کر تیسری دنیا میں ایسی قیادت پروان چڑھانے میں معاونت کرتے ہیں جوسیاست، جمہوریت، قیادت اور حکومت کے ذریعے اپنے ملکوں اور قوموں کو لوٹ کر دوسرے ملکوں خاص کر مغربی ممالک میں اپنی دولت اکٹھی کریں اور پھر اسی دولت کی قوت سے استحصالی نظام کو مختلف ناموں کی کشش سے قوموں کو غلامی کا خوگر بنا دیں۔ روٹی کپڑا اور مکان، قرض اتارو ملک سنوارو، ووٹ کو عزت دو، مجھے کیوں نکلا اوربھٹو صاحب کا نیا پاکستان ایک جیسے پرکشش مگر دھوکہ دہی پر مبنی نعرے تھے جنہیں غلامانہ ذہنیت کے عوام نہ سمجھ سکے۔ اسلامی نظریہ سیاست کے مطابق سیاستدان کا پہلا کام عوام الناس کو علم سے روشناس کروانا اور انہیں آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ابتدائے آفرنیش سے لیکر ابتدائی اسلامی دور تک ہر نبی اوررسول نے یہ کام کیا تاکہ لوگ قانون فطرت کی حقیقتوں کو پوری طرح سمجھ کر ایک دین دار معاشرہ اور ریاست قائم کریں اور پھر ایسے لوگوں کو حق حکمرانی دیں جو دینی و دنیاوی لحاظ سے سب سے بہتر ہوں۔
بدقسمتی سے آج کسی بھی اسلامی ریاست کا اسلامی سیاسی کردار نہیں۔ نام نہاد اسلامی ریاستوں میں جبر واستحصال پر مبنی میکاولین اورچانکیائی نظریات مسلط ہیں جنہیں دین کے لبادے میں پیش کرنیواے چند خاندان ہیں۔ ہمارا آئین جس شخصیت کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے وہ خود میکاولی کا برستار تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور جواہر لعل نہرو میں یہ قدر مشتر ک تھی کہ دنوں کا آئیڈیکل میکاولی تھا۔ نہرو میکاولی کو اس لیے پسند کرتا تھا کہ چونکہ وہ چانکیاکو تییلہ کا مقلد تھا۔ نہرو نے اپنا لقب چانکیا پسند کیااور دلی میں ڈپلو میٹک انکلیو کا نام چانکیا نگر رکھا۔مشہور تھا کہ بھٹو میکاولی کی مشہور زمانہ تصنیف ”دی پرنس“ اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر سوتے تھے۔
سیدہ عابدہ حسین نے اپنی تصنیف ”اور بجلی کٹ گئی“ میں لکھا کہ بھٹو کینہ پرور اور عونت سے بھرپور شخصیت کے حامل تھے۔ اُن کے اندر جاگیر دارنہ تکبر تھا اور وہ ہر کسی کا تمسخر اڑانے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یادرہے کہ بینظیر کی تربیت اپنے جاگیردار اور مریم نواز کی تربیت اُن کے تاجر کارخانہ دار اور چکمہ بازی کے ماہر والد نے کی۔ باوجود اسکے بائیس کروڑ انسان ان ہی دوشخصیات کے میکاولین نظریات پرایمان کی حدتک یقین رکھتے ہیں۔ عوام الناس عقلی اور شعوری لحاظ سے پسماندہ اور بڑی حدتک مفلوج ہیں۔ وہ قوم جو گندگی کے ڈھیر سے رزق اور شر کے انبار سے خیز تلاشتے کی عادی ہوا ُس کا حال ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اہل پاکستان کا ہے۔ چانکیا کی تعلیمات کی بنیاد ہی بد عہدی، چکمہ بازی، فریب کاری، مکاری وعیاری ہے۔ میکاولی بھی بد عہدی، فریب کاری، جبر واستحصال کی تعلیم دیتا ہے۔ میکاولی کا مشہور قول ہے کہ حکمرا ن کو لومڑی کی طرح مکار اور چیتے کی طرح خونخوار ہونا چاہے۔ اُسے چاہیے کہ قانون کی آڑ میں عوام کا شکار کرے۔
دونوں سیاسی مفکر اس بات پر متفق ہیں کہ حکمران کی فطرت اور نیت میں مکاری کا عنصر غالب ہو تو اسی نوعیت کے لوگ اُن کے صلاح کار بن کر حکومت کی مضبوطی اور حکمران کی قوت بن جاتے ہیں۔ بہانے تلاشنے والے مشیر اور صلاح کار عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے مملکت پاکستان میں قانونی وآئینی ماہرین کے علاوہ فرسودہ علوم کے ماہرین جن میں صحافی، دانشور اور سیاستدان شامل ہیں مکر و فریب اور ایسے حیلے بہانوں کی درسگائیں ہیں جہاں قانون وآئین کی آڑ میں عوام کا شکار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
[مصنفہ پشاور میں مقیم سیاسی کارکن اور لرنرز فورم کی ممبر ہے ۔]