ڈوگرہ عہد سے تقسیم تک
ڈوگرہ عہد میں جب گلگت کا اقتدار مقامی راجوں سے ‘‘وزیر وزارت ’’ کو منتقل ہوا تو وادی گریس کو ابتدائی طور پر گلگت وزارت کا حصہ بنایا گیا۔ اسی دور میں وفادار ملک گریس کا تھانیدار تھا۔ بعد ازاں کشمیر میں جب پہلا بندوبست 1896 / 1898ہوا تو وادی گریس اور استور کو گلگت وزارت سے الگ کر کے انتظامی لحاظ سے صوبہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ اس دور میں گریس کو انتظامی لحاظ سے نیابت کی حیثیت حاصل تھی۔ حکومت چاہتی تھی کہ جس علاقہ میں دریائے کشن گنگا بہتا ہے وہ تمام کا تمام انتظامی لحاظ سے ایک ہی انتظامی اکائی کا حصہ بنے اس لئے کہ مظفرآباد وزارت پہلے ہی صوبہ کشمیر میں شامل تھی بعد ازاں گریس کو بھی اسی صوبہ کا حصہ بنا یا گیا۔ گریسن نیابت اتر مچھی پورہ(ضلع) میں شامل تھی اور اس کی حد شاردہ تک تھی۔ اس دور میں گریس کا اصل مرکز بانڈی پورہ بن گیا۔
ڈوگرہ دور میں وادی گریس میں اہم کام ہوئے۔ اسی دور میں انگریزوں کی تحریک پر سری نگر تا گلگت تک سڑک کی نکاسی کی گئی جو وادی گریس سے ہو کر گزرتی تھی۔ دوسرا کام یہ ہوا کہ اس سڑک پر اس زمانے کا متحرک ڈاک سسٹم وضع کیا گیا۔ وادی گریس میں کئی مقامات پر ڈوگرہ نے ڈاک بنگلے تعمیر کئے۔ تیسرا بڑا منصوبہ گریس سے براستہ شاردہ (سرگن )چلاس تک سڑک کی نکاسی کا سروے کیا گیا۔ اسی دور میں وجی میدان کے متبادل بانڈی پورہ تا کنزلوان کا راستہ زیادہ استعمال ہونے لگا۔
ڈوگرہ اقتدار کا گریس سے خاتمہ :
1947ء میں گلگت میں جب گلگت اسکاؤٹس اور مقامی افراد اور کشمیر کے چند فوجی افسران نے مشترکہ طور پر آزاد ی کی تحریک شروع کی تو اس میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے مجاہدین کا ایک گروپ ‘‘ٹائیگر فورس ’’ کے نام سے استور کے راستے گریس میں داخل ہوا۔ منی مرگ سے برزل نالہ کے ساتھ ساتھ تمام علاقہ کو آزاد کراتے ہوئے یہ مجاہدین گریس کی آخری حد تراگبل تک جاپہنچے اور یہ تمام علاقہ گلگت کی ‘‘ٹائیگر فورس ’’ کے قبضہ میں آگیا۔ تراگبل کو بیس کیمپ بنا کر مجاہدین نے بانڈی پورہ کی آزادی کے لئے تگ و دو شروع کی۔ لیکن بھارتی فضائی حملوں ،تلیل اور گریس میں چند مقامی افراد کی ملی بھگت اور کچھ ہماری عسکری غلطیوں سے فائدہ اٹھا کر یہ تمام علاقہ مجاہدین سے خالی کروالیا گیا۔ اسی دوران وادی نیلم میں شاردہ کے راستے فوج کی زیر قیادت مجاہدین تاؤبٹ تک پہنچ گئے۔ جنگ بندی کا اعلان ہوا تو چوراں ساندیال تک انڈین آرمی قابض ہو چکی تھی۔ دوسری طرف شاردہ کی جانب سے آنے والے پاکستانی فوجی افسران نے تاؤبٹ تک کا علاقہ دفاعی لحاظ سے محفوظ بنا کر اسے پرانی تحصیل کرنا ہ (موجودہ ضلع نیلم) سے منسلک کر دیا تھا۔ اسطرح گریس و تلیل کا علاقہ مقبوضہ کشمیر میں بانڈی پورہ کے ساتھ ،منی مرگ ٹائیگر فورس کے ذریعہ استور کے ساتھ اور مچھل سے تاؤبٹ تک کا علاقہ تحصیل کرناہ سے منسلک ہو گیا۔ ہزاروں سال قبل جس خطہ میں عالمگیر بدھی کانفرنس ہوئی ،جس کے سینے پر سے قدیم شاہرائے ریشم کا لنک گزرتا تھا، اور جہاں سادات نے دین اسلام کا پرچم بلند کیا وہ خطہ گمنامی میں ڈوب کرتین حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
گریس1947سے1949تک :
وادی گریس میں پہلی کاروائی:
گلگت اور بونجی میں کامیابی کے بعدکرنل حسن خان استور پہنچے جو اس وقت صوبہ کشمیر ہی میں شامل تھا۔ استو ر میں انہیں یہ خبر ملی کہ ایک جاسوس انقلاب گلگت کی تفصیل ڈوگرہ کو دینے کے لئے چلم پہنچ چکا ہے جو کہ وادی گریس کا دروازہ ہے۔ اس موقع پرکرنل حسن خان نے دو افسران جان عالم اور سلطان ایوب کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ برق رفتاری سے کام لے کر اس جاسوس کو گرفتار کر کے استور لے آئیں۔ کرنل حسن خان کے مطابق یہ دونوں مخلص اور بااعتماد مجاہد تھے۔ جان عالم فوج سے استعفیٰ دے چکے تھے اور اس وقت مجاہدین کے شانہ بشانہ استور میں برسر پیکار تھے۔ ان دونوں افسران نے چلم سے کچھ آگے جا کر اس جاسوس کو گرفتار کر لیا۔ اسی دوران صوبیدار غلام مرتضیٰ، ڈپٹی کیپٹن محمد سعید اور سکاؤٹ پلاٹون کے ساتھ گلگت سے استور کرنل حسن خان کے پاس پہنچے۔اس زمانے میں چلاس اور گلگت کے تاجروں کے لئے سامان خورونوش اور اشیائے ضرورت سری نگر سے براستہ گریس آتی تھیں۔مقامی جاسوس کی گرفتاری کے بعد یہ خبر ملی کہ ایک انگریز جاسوس جو کہ کاشغر میں انڈین کونسل جنرل کا ملازم تھا سری نگر پہنچ گیا ہے جس نے انقلاب گلگت کی تفصیل حکومت تک پہنچا دی ہے۔اس حوالے سے میجر محمد خان جرال اپنے مضمون ‘‘انقلاب اور جنگ آزادی ’’ میں لکھتے ہیں کہ
‘‘ہم انتہائی کٹھن مرحلے سے گزر رہے تھے کہ ایک امریکی افسر ‘‘میجر ویلکن’’ کاشغر جانے کے لئے اچانک بونجی پہنچا۔میں نے اسے مشورہ دیا کہ اس وقت یہاں کے حالات خراب ہیں لہذا عافیت اسی میں ہے کہ آپ یہاں سے واپس سری نگر چلے جائیں۔ امریکی افسر نے فورا ًسری نگر جانے کا فیصلہ کیا۔ اسی وقت کیپٹن بلدیو سنگھ نے گلگت بونجی کے حالات کے متعلق ایک تفصیلی خط لکھ کر اس کے حوالے کیا اور کہا کہ سری نگر پہنچ کرگریژ ن ہیڈ کوارٹر کے حوالے کر دیں۔ جب مجھے اس خط کے بارے میں معلوم ہوا تو میں سخت پریشان ہوا اور میں نے دونوجوانوں کو اس میجر کے پیچھے روانہ کیا اور ان کو کہا کہ جہاں یہ افسر رات گزارے ،وہاں پہنچ کر اس سے یہ خط حاصل کریں اور اسے کچھ نہ کہیں۔ یہ دونوں جوان اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور خط لے کر بونجی پہنچے۔ ’’
اس انگریز جاسوس کی اطلاع کے بعد گلگت اور چلا س کے تاجروں کا سامان جو گریس پہنچا تھا اسے سری نگر واپس کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔
پروفیسر عثمان علی صاحب لکھتے ہیں کہ
‘‘یہ اطلاع پا کر گلگت کے تاجروں نے گلگت میں تعینات میجر براؤن سے تحریری درخواست کی کہ ہمارا سامان تجارت بحفاظت گلگت پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ گلگت سے صوبیدار غلام مرتضیٰ کو اسی مقصد کے لئے بھیجا گیا تھا۔ ’’
کرنل حسن خان حقیقت میں اس وقت سکاؤٹس کو لیڈ کر رہے تھے اس لئے استور پہنچ کر صوبیدار غلام مرتضی ٰ اور حسن خان کے درمیان مشاورت ہوئی کیونکہ یہ سامان تجارت جو ایک بڑے قافلے کی شکل میں تھا واپس لا نا آسان نہ تھا۔ نومبر کے مہینے میں برف تلے دبے ہزاروں فٹ بلند درہ برزل سے گزر کر اس قافلے تک پہنچنا تھا جبکہ یہ اندیشہ بھی تھا کہ دشمن کے دستے اگر وہاں موجود ہوئے تو نہ صرف مہم ناکام ہو گی بلکہ بھیجے گئے اسکاؤٹس بھی جان سے جائیں گے۔ محدود وسائل اور افرادی قوت کو مد نظر رکھ کر قدم اٹھانے کی ضرورت تھی۔
کرنل حسن خان لکھتے ہیں کہ‘‘ میں خود اس مہم پر جانا چاہتا تھا۔ لیکن صوبیدار غلام مرتضی نے پہل کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس مشن کے لئے پیش کیا۔ ’’انہوں نے ایسا اس لئے بھی کیا ہو گا کہ وہ ذہنی طور پر اس مہم کے لئے گلگت سے تیار ہو کر آئے تھے۔ صوبیدار غلام مرتضیٰ کا یقینا یہ انتہائی جرات مندانہ اقدام تھا اور اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جس نے درہ برزل کی کئی گز اونچی برف دیکھی ہو۔ بہرحال صوبیدار غلام مرتضیٰ اس مہم میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ یہ سارا سامان تجارت گلگت میں تاجروں تک پہنچ گیا۔ اگر یہ مہم ناکام ہو جاتی تو گلگت میں اشیائے خوردونوش کی کمی کی وجہ سے سکاؤٹس کے خلاف منفی تاثر پیدا ہوتا لیکن اس کامیابی کے بعد گلگت کے عوام کا مجاہدین پر مکمل اعتماد بحال ہو گیا۔ گریس میں اسکاؤٹس کی طرف سے یہ پہلی اہم کامیابی تھی جس کے اثرات دوررس مرتب ہوئے۔
میجر غلام مرتضیٰ :
میجر غلام مرتضیٰ کی وادی نیلم بالخصوص وادی گریس کے محاذ جنگ پر 1948ء اور 1965ء میں گراں قدر عسکری خدمات ہیں۔ جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ میجر غلام مرتضیٰ کا تعلق ‘‘ہنزہ ’’ سے تھا۔ 1919ء میں ہنزہ کے گاؤں ‘‘گریتھ’’ میں پیدا ہوئے۔ گلگت اور سری نگر میں تعلیمی مراحل طے کر کے اسکاؤٹس میں بھرتی ہوئے۔ جب گلگت کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو بحیثیت صوبیدا ر ہنزہ کے علاقہ ‘‘قلندرچی ’’ میں خدمات سر انجام دے رہے تھے۔یہاں آپ پونیال پلاٹون کے کمانڈر تھے۔ 1948ء کی جنگ آزادی میں پیش پیش رہے۔ 1949ء میں کمیشن ملا۔ 1965ء کی جنگ میں تھری ونگ کے کمانڈر تھے۔ بالائی وادی نیلم میں 1965ء کی جنگ میں زبردست جنگی حکمت اور جرات سے بحیثیت کمانڈ ر کمانڈو سری نگر تک پہنچائے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں ستارہ جرا ت سے نوازا گیا۔
گریس اور بانڈی پورہ کی آزادی کے لئے ‘‘ٹائیگر فورس ’’ کی تشکیل :
کرنل حسن خان نے گلگت اسکاؤٹ اور دیگر معاونین کی مدد سے گلگت میں جو کامیاب انقلاب برپا کیااس کے نتیجے میں گلگت سے ڈوگرہ اقتدار ہمیشہ کے لئے ختم ہوا۔ اس انقلاب کی اہم کامیابی ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری اور گلگت میں ڈوگرہ کے سب سے اہم عسکری مرکز بونجی فوجی چھاؤنی سے ڈوگرہ سپاہ کا انخلا ء اور گلگت و چلاس کے تاجروں کا سامان بحفاظت گلگت پہنچا نا تھا۔ اس دوران گلگت میں مقامی قیادت کی درخواست پر حکومت پاکستان کی طرف سے سردار محمد عالم اور میجر محمد اسلم خان کو بھیجا گیا۔ سردار محمد عالم 16نومبر 1947ء کو گلگت کے انتظامی سربراہ ‘‘پولیٹیکل ایجنٹ ’’ بنائے گئے جبکہ میجر محمد اسلم کو عسکری سربراہ کے طور پر کماندنٹ گلگت بنا کر بھیجا گیا۔ میجر محمد اسلم خان نے گلگت کی مقامی فوجی قوت کو مزیدمنظم کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی۔ اس منصوبہ بندی کے مطابق عسکری قوت کو دوونگ ٹائیگر فورس اور مارخور فورس میں تقسیم کیا گیا۔ مارخور فورس کی قیادت میجر احسان علی کو سونپی گئی جن کے ذمہ بلتستان کی جانب پیش قدمی کر کے اسے آزادی دلانا تھا جبکہ ٹائیگر فورس کا سربراہ میجر مرزا حسن خان کو بنایا گیا اور انہیں استور و گریس کے راستے بانڈی پورہ تک پہنچنا تھا۔ مشن پر روانہ ہونے سے قبل ہر دو فورسز کے سپاہ کی ابتدائی تربیت کو بھی منصوبہ بندی کا حصہ بنایا گیا۔ اس مقصدکے لئے جنوری کے تیسرے ہفتے میں چلاس میں تربیت شروع ہوئی جو ایک ماہ جاری رہی۔ اس تربیتی کیمپ کے بعد ٹائیگر فورس استور کے راستے گریس کی طرف بڑھی۔ چلاس سے بونجی اور پھربونجی سے 4 مارچ کو استور روانہ ہوئی۔
اس فورس کا نام ٹائیگر فورس برفانی چیتے کے نام پر رکھا گیا بعد میں یہ فورس کافی عرصہ تک بانڈی پورا میں چھاپہ مار کاروائیوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے ‘‘بانڈی پورہ فورس ’’ کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔
ٹائیگر فورس کے لئے چیلنج:
جس وقت یہ فورس اپنے مشن پر روانہ ہوئی اس کے سامنے تین بڑے چیلنجز تھے جن کا ذکر ہمیں کرنل حسن خان کی آپ بیتی میں بھی ملتاہے۔
نمبر۔ 1۔ ٹائیگر فورس اسلحہ کی کمی اور عسکری ضروریات سے محروم تھی یہاں تک کہ انہیں زیب تن کرنے کے لئے معقول عسکری لباس بھی دستیاب نہ تھا جو مقامی موسم اور جغرافیائی حالات کے مطابق ہو۔بلکہ ان کی کل متاع کباڑیئے کا وہ لباس تھا جسے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے روانگی پر بذریعہ ہیلی ان پر گرایا گیا تھا۔ راونگی کے وقت ٹائیگر فورس کی کل تعداد چندسو کے قریب تھی اور ان میں زیادہ تر وہ سپاہ تھی جو باقاعدہ فوجی تربیت سے محروم تھی۔
نمبر 2۔ٹائیگر فورس کے سامنے برزل پاس اور راجدھان پا س کی صورت میں ہزاروں فٹ بلند درے کوہ گراں کی مانندحائل تھے۔ چلم میں اس وقت آٹھ فٹ بر ف پڑ چکی تھی جبکہ تراگبل اور راجدھان پاس پر پندرہ فٹ کے قریب برف کے پہاڑ کھڑے تھے۔
نمبر 3۔ وادی گریس جسے فتح کر کے اس فورس نے بانڈی پورہ کی تسخیر کرنی تھی۔ اس میں تقسیم ہند سے کچھ عرصہ قبل ہی شیخ عبداللہ کانگریس کے رہنمانہرو کے ساتھ سیاسی دورہ کر چکے تھے اور پھر گریس کا یہ علاقہ گذشتہ طویل عرصہ سے گلگت کے کسی علاقے کے بجائے وادی کشمیر کے علاقہ بانڈی پورہ کے زیر انتظام رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اشیائے خوردو نوش سے لے کر سیاسی ضروریات تک ہر چیز بانڈی پورہ سے وابستہ ہو چکی تھی۔ اس لئے ایسی کوئی بھی تحریک جو بانڈی پورہ کی حمایت سے اٹھتی وہ اہلیان گریس کے لئے بظاہر زیادہ سودمند دکھائی دیتی تھی جبکہ اس کے برعکس ٹائیگر فور س کی تحریک گلگت سے آگے بڑھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قدم قدم پر ٹائیگر فورس کو مقامی سطح پرحمایت کے بجائے نقصان کا اندیشہ تھااور پھر ایک ایسا علاقہ جو اگلے مورچوں یعنی بانڈی پورہ کی پشت پر ہو تو پھر کامیابی کا تناسب کم رہ جاتا ہے۔
اس تمام پس منظر میں کرنل حسن خان کشتیاں جلا کر آگے بڑھے اور اپنی فوجی حکمت عملی او ر جذبہ صادق کی وجہ سے غیر معمولی کامیابی حاصل کی یہاں تک کہ گریس اور تلیل کو فتح کرتے ہوئے ٹائیگر فورس بانڈی پورہ تک پہنچ گئی اور پھر اچانک حسن خان کو مرکز سے واپس بلا یا گیا کہ وہ فوجی تقاضے پور ے کر کے باقاعدہ پاکستانی فوج کا حصہ بنیں۔ ان کی واپسی کے بعد فتح شکست میں بدل گئی اور تلیل او رموجودہ مقبوضہ گریس کا علاقہ بھارتی تسلط میں چلا گیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ منی مرگ اور اپر گریس کے علاقوں کی آزاد ی بھی خطرے میں پڑ گئی۔ اس دوران حسن خان فاتح کو گریس دوبارہ واپس بھیج دیا گیا جس کی وجہ سے گریس کا علاقہ منی مرگ اورمچھل سے تاؤبٹ تک نہ صرف محفوظ ہو گیا بلکہ حسن خان نے دوبارہ گریس میدان اورتلیل پر قبضہ کے لئے بھی حملہ کیا لیکن طے شدہ پروگرام کے مطابق اچھور کے عقب سے چھاپہ مار دستے وقت پر نہ پہنچ سکے اور مزید کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
چلاس سے بجانب گریس ٹائیگر فورس کی روانگی :
آزادی گریس کی اس مہم کو اب قدرے تفصیل میں جا کر ملاحظہ کرتے ہیں۔ یہ تفصیل مرزا حسن خان کی کتاب شمشیر سے زنجیر تک سے پیش کی جارہی ہے وہ لکھتے ہیں۔
‘‘28فروری 1948ء کو ٹائیگر فورس چلاس سے روانہ ہوئی۔ استور سے بانڈی پورہ تک کا ڈیڑھ سو میل کا علاقہ برف میں مستور تھا۔ خونخوار لانیاں اور یخ کی گہری دراڑیں قدم قدم پر ہماری راہ روکنے اور زندہ نگلنے کے لئے گھات لگائے بیٹھی تھیں۔ برزل ٹاپ پر دشمن نے ہوائی جہاز سے ہم پر پہلی بمباری کی۔ ہم تازہ برف میں غوطے لگا کر بچ گئے۔ لیکن وہ بنگلہ جس کی چارددیواری کا طواف کرتے ہوئے رات اس میں بسر کرنے کی توقع تھی وہ اپنی جگہ سے اڑ کر مع بام و در ہماری راہ میں آگراتھا۔ گریز میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو لمحہ لمحہ کی خبر ہماری آمد سے پہلے پہنچا رہے تھے۔ آخر ہم برف کا یہ سمندر پار کر کے گریس میں پہنچ گئے۔ کچھ لوگوں نے ہمیں یہاں حیلے بہانوں سے روکنے کی کوشش کی تاکہ تراگبل پر قبضہ کا موقع نہ ملے۔ جب ہم چلاس سے تراگبل ٹاپ تک گیارہ دنوں میں برف میں دھنستے ابھرتے منزل مقصود تک پہنچے تو راشن ختم ہو چکا تھا۔ صرف تین سیر آٹا جھولوں میں باقی رہ گیا تھا۔ زندگی اور جنگ دونوں کو طول دینے کے لئے ہم نے یومیہ راشن ایک چھٹانک فی کس کر دیا۔ ’’
معرکہ تراگبل :
تراگبل بانڈی پورہ کے لئے ایک گیٹ وے کا کام کرتا ہے۔ یہاں ڈوگرہ دور میں حفاظتی نقطہ نظر سے ایک ڈاک بنگلہ موجود تھا اوراس مقام پر ڈوگرہ سپاہ بھی تعینات رہتی تھیں۔ تراگبل سے ہی گریس میں داخل ہونے کے دونوں راستے نکلتے تھے پہلا راستہ کنزلوان اور دوسرا وجی مالی سے داور کی طرف جاتا تھا۔ اس لحاظ سے یہ اہم دفاعی مقام تھا۔ کرنل حسن خان نے تراگبل پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ مزید پیش قدمی کر کے بانڈی پورہ کے عقب میں واقع گاؤں سونار وانی تک جا پہنچے۔ کرنل حسن خان اس معرکہ کا احوال اس طرح لکھتے ہیں کہ
‘‘غرض جب ہم 24مارچ 1948ء کو تراگبل پہنچے تو صرف ایک لشکر لیفٹیننٹ کرنل ملک شیر محمد (پنجاب رجمنٹ ) کے ساتھ دشمن سے تاہنوز نبرد آزما تھا۔ درہ تراگبل سے بارہ میل اترائی میں وادی کی طرف پہنچے تو دشمن کا ایک برگیڈ بانڈی پورہ میں خیمہ زن تھا۔ اس کا ایک برگیڈ ذرا شمال کو گاندربل میں تھا جو زوجیلہ کی نگرانی کرتا تھااور ایک برگیڈ ہم سے کچھ مغرب میں لولاب میں شیر محمد کے اس لشکر سے نبرد آزما تھا۔ دشمن ہماری تاک میں اوپر آرہا تھا سب سے پہلے اس نے ڈاک بنگلوں پر بم باری کی اورپنے زعم میں گویا اس نے ہمارا بھرکس نکال دیا۔ چھوٹے ٹینک آگے بڑھے اور اس کے پیچھے انفنٹری تھی۔یہ ایک خیرہ کن منظر تھا۔ (ٹا ئیگر فورس بانڈی پورہ برگیڈ ہیڈ کوارٹر سے صرف بیس میل کے فاصلہ پر سندروان کے عقبی جنگل میں تھی۔سندروان جسے سوناروانی بھی کہتے ہیں ،پہاڑ کے دامن میں ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ جس کی جانب انڈین آرمی مسلسل پیش قدمی کر رہی تھی)۔’’
جنگل کے دامن میں ہمارے مجاہدین نے بڑے بڑے درختوں کے تنوں کو آڑبنایا تھا۔ دشمن کی نفری جب کھلے میدان میں خیمہ زن ہوئی تو نادر موقع ہاتھ آیا۔ صوبیدار شاہ جہاں اور سلطان ایوب کی مارٹر مشین گنوں نے ان کے پر خچے اڑا دیئے۔ دشمن مورچے کھودنے نہ پایا اور کھلے میدان میں پکڑا گیا۔ اس تباہی کے بعد دشمن نے آگے آنے کی ہمت نہ کی۔ ہماری تعداد جاسوسوں نے مبالغہ آمیز حد تک بڑھا کر پیش کی تھی۔میدان میں شکست کھانے کے بعد دشمن نے ہوا سے تراگبل پر جہازوں کے ذریعے ایسی بمباری کی گویا تراگبل کے پہاڑ کو ہلا کر رکھ دیا ہو۔ پھر مشین گنوں اور راکٹوں سے جنگل پر بارش کر دی۔ دشمن جنگل کی طرف نہیں آرہا تھا اور ہم مٹھی بھر مجاہدوں کو اس کے ٹینکوں کے آگے لے جانا نہیں چاہتے تھے۔ دشمن نے ذہنی دباؤ میں آکر اچانک اپنا زور لولاب میں دکھانا شروع کر دیا جہاں کرنل شیر محمد تھے۔ ہم نے بانڈی پورہ کے گرد ونواح کے پہاڑوں پر قبضہ کے لئے حملوں میں تیزی دکھائی۔ شکر دین کی ڈھیری پر ہماری پلٹن چڑھی اور قصبے کو گھیرے میں لے لیا۔ سوپور پر بھی حملے کئے۔ وہاں صرف ہندؤں کے ایجنٹ تھے۔ کوئی فوج موجود نہ تھی۔ بانڈی پورہ سری نگر سے صرف 20میل دور اور سوپور اس سے بھی کم فاصلہ پر ہے۔
جھیل وولر میں تہلکہ :
سونار وانی سے آگے جھیل وولر آجا تی ہے جس کے کنارے بانڈی پورہ کا شہر آباد ہے۔ مجاہدین سوناروانی سے آگے بڑھ کر جھیل وولر کے قریب جا پہنچے اس سے قبل کہ دشمن وار کرتا بانڈی پورہ فورس نے پہل کر دی۔ کرنل حسن خان کے مطابق:
‘‘تراگبل میں دشمن نے اگلی یونٹوں کے تبادلے کا ایک نیا ڈھنگ نکالا۔ اس نے شادی بیاہ کی ایک بارات کی شکل میں ایک یونٹ جھیل کے شمالی کنارے کی طرف روانہ کرد ی۔ وہ کشتیوں میں گانا بجاتے آرہے تھے۔ ہمیں اس کی بروقت خبر مل گئی اور بارات کو کناروں کے قریب تک آنے دیا۔ جب برین گنوں کا منہ کھلے اور ہماری مشین گنوں نے آتش نوائی کی تو کشتی کشتی سے ٹکرائی۔ کچھ بے تحاشا بھاگے اور کچھ ڈبو دیئے گئے۔ دشمن کو یہ دوسری بڑی شکست تھی۔ ’’
گنگا بل پر قبضہ :
تراگبل اور جھیل وولر پر کامیاب کاروائی کے بعد ٹائیگر فورس کی تیسری بڑی کامیابی گنگا بل اور اس کے اطراف کے علاقے پر قبضہ تھا جو کہ تراگبل کی پشت پر ہے اور جہاں سے تلیل اور گریس کی جانب راستے نکلتے ہیں۔مجاہدین کی چھاپہ مار کاروائی ناکام بنانے کے لئے ان کا مرکز سے رابطہ منقطع کرنا از حدضروری تھا جسے کرنل حسن خان نے ناکام بنا دیا اس معرکہ کا ذکر کرتے ہوئے کرنل حسن خان لکھتے ہیں کہ
‘‘وادی کشمیر کا سب سے خوبصورت پہاڑ ہر مکھ ذرا ہمارے مشرق کو تھا۔ اس کی نچلی ڈھلوانوں پر گنگا بل کی خوشنما جھیل ہے جوسطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ بلندی پر ہے۔ دشمن نے چپکے سے اس پر قبضہ کر کے ہمیں گریس سے منقطع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ہم بھی اس کی اہمیت سے ناواقف نہ تھے۔ گلگت سب ڈویژن کی نفری اس طرف روانہ کر دی۔ یہ حملہ نیچے سے اوپر تھا۔ نابکار دشمن نے ٹائیگر ز کو بے تحاشا اوپر کی طرف بڑھتے دیکھا تو بے مقصد فائرنگ کرنے کے بعد فرار ہوگیا اور دنیا کا یہ بلند ترین مورچہ ہمارے ہاتھ آیا۔ ’’
کیرن سے تاؤبٹ تک انڈین حملے کا کامیاب دفاع:
محاذ کشمیر اوڑی سے لے کر بلتستان تک گرم تھا۔ کہیں لشکریوں اور کہیں مجاہدین کی پسپائی شروع ہو چکی تھی۔ ٹائیگر فورس کے ہاتھوں پے درپے شکست کے بعد انڈین آرمی نے لولاب میں بر سر پیکار مجاہدین پر دباؤ بڑھا دیاتاکہ ان کی پیش قدمی جو ٹائیگر فورس کی وجہ سے گریس کی طرف سے رک گئی تھی اسے شاردہ اور کیرن کی طرف سے آگے بڑھایا جا ئے۔ جس میں انڈین آرمی کافی حد تک کامیاب دکھائی دے رہی تھی اور اس کی ایک وجہ وہ قبائلی اور لشکری بھی تھے جو محاذ جنگ سے مسلسل پسپا ہو کر راہ فرار اختیار کر رہے تھے۔ کرنل حسن خان لکھتے ہیں کہ
‘‘اس اثنا میں کہ ہم ان کاروائیوں میں مصروف تھے لولاب سے المدد کی صدائے دردناک سنائی دی۔ چند دنوں سے سے دشمن کا ایک برگیڈ اس طرف اپنا زور صرف کر رہا تھا۔توپوں کی گھن گرج اور ہوائی بم باری سے وہاں کی فضا لرزی اور زمین کانپ اٹھی۔ میں نے راتوں رات کیپٹن اکبر حسین کی کمپنی کو دنبال روانہ کیا۔ تاکہ گردوپیش میں چھاپے مار ے اور دشمن جو شیر محمد کی طرف بڑھ رہا تھا اس کی پیش قدمی میں رکاوٹ ڈالے۔ قبائلی یہ جا وہ جا شیر محمد کا ساتھ چھوڑ کر ٹیٹوال واپس پہنچ چکے تھے۔ دشمن کے اس حملے سے خود ٹائیگر فورس کو بھی گلگت سے رابطہ منقطع ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔
دشمن کا برگیڈ لولاب سے ٹیٹوال کی طرف بڑھا تو تمام وادی کشن گنگا اس وقت کسی آزادکشمیر فورس، پاکستانی یونٹ یا قبائلی لشکر سے خالی تھی۔ مجھے اور خود وہاں کی مسلمان آبادی کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ دشمن ان علاقوں پر بھی بے روک ٹوک قبضہ نہ کر لے جو جنگلات کی دولت سے مالا مال تھے۔ ان لوگوں نے میری توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ اگر کوئی نفری اس طرف بھیج دوں تو وہ ان سے بھرپور تعاون کریں گے۔ میں نے اس کی اجازت دے دی۔ یہ تمام وادی زوجیلا تک دوسومیل میں پھیلی ہوئی ہے اور عدل کے دروازوں سے دور محکمہ مال اور پولیس کے لالچی عملے کے قریب یہ آزادحکومت کے سول اور ملٹری کنٹرول میں ہے۔ ’’
کیپٹن اکبر حسین :
کیپٹن اکبر حسین کو کرنل مرا حسن خان نے وادی نیلم کے دفاع کے لئے منتخب کیا۔ کیپٹن اکبر علی ایک بہادر شخص تھے۔ آپ حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے والد حسین علی خان راجہ گوپس تھے۔ انقلاب گلگت کے دوران صوبیدار بنے۔ بعد میں لیفٹننٹ اور کیپٹن کے عہدے تک پہنچے۔اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ محاذ تراگبل میں اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
کیپٹن اکبر حسین کی کاروائی کا ذکر کرتے ہوئے کرنل حسن خان لکھتے ہیں
‘‘کیپٹن اکبر حسین کی کمپنی کو تحصیل ہندواڑہ کے ان اہم علاقوں پر دشمن کا پیچھا چھوڑ کر فوراً وادی نیلم پر قبضہ کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ کیرن کے مقام سے لوات کی طرف بڑھے اور دونیال،شاردہ ،کیل ، جانوائی ،پھلاوائی ، سرداری ،ہلمت اور تاؤبٹ کے علاقوں پر مقامی لوگوں کی مدد سے قبضہ کیا اور تراگبل کے محاذ کو پشت پر سے محفوظ کر دیا۔ یہی علاقے اب خوبصورت وادی نیلم کہلاتے ہیں اور آزادکشمیر اس کے جنگلات کی دولت پر زندہ ہے۔ ’’
ایک نیم سویلین دستے کی آمد اورکرنل حسن خان کی محاذ سے واپسی:
تراگبل کی جنگ جب طول پکڑ گئی اور ہمارے جی ایچ کیوکو احساس ہو اکہ پانچ سو سے ایک برگیڈ کا کب تک مقابلہ ممکن ہے؟ تو انہوں نے چار پانچ سو کا ایک اور چاک و چوبند دستہ مناسب اسلحہ سے لیس اس طرف بھیجا۔ (فرنٹیئر کانسٹیبلری کا دستہ کیپٹن حبیب گل کے ہمراہ براستہ کیل محاذ جنگ پہنچا۔)اس امدادی دستے کے پہنچنے پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا کوئی آزاد فورس کاکمانڈرپاک فوج کی قیادت کر سکتا ہے یا نہیں ؟
کرنل حسن خان لکھتے ہیں کہ
‘‘یہ دستہ براؤن اور میتھین کی کمان میں تھا۔ براؤن کو گلگت میں اس کی نظر بندی سے رہائی کے بعد راقم اور سردار محمد عالم نے گلگت سے پیدل براستہ چترال پاکستان واپس بھجوا دیا تھا۔ان پر گلگت سے خفیہ ایمونیشن چترال بجھوانے کے الزام تھے۔ شاردہ سے انہوں نے کنسٹیبلری کی کمان کیپٹن حبیب گل کو سونپی اور خود پنڈی پہنچ کر یہ سوال اٹھایا کہ کوئی آزاد افسر قانونا کسی پاک یونٹ کی کمان نہیں کر سکتا تھاہالانکہ دوسری عالمگیر جنگ میں کشمیر آرمی کا آفیسر ہونے کے باوجود میں انڈین آرمی کے دستوں کی کمان کرتا رہا تھا۔تراگبل میں میں خوش تھا کہ اس نئے دستے کی آمد سے بانڈی پورہ پر ہمارا قبضہ اور وادی کشمیر میں ہمارا داخلہ دوبارہ ممکن ہوگا۔ لیکن وہا ں میری فوری واپسی کے احکامات گلگت سے موصول ہوئے۔ محاذ کی کمان چترال اسکاؤٹس کے لیفٹیننٹ کرنل اصغر علی شاہ اور کیپٹن انور کو سونپی۔ بے چارے کیپٹن حبیب گل جو ان دونوں سے سینئر تھے پاک کمیشن نہ ہونے کی وجہ سے منہ دیکھتے رہ گئے’’۔
گریس میں پسپائی :
کرنل حسن خان کی راولپنڈی روا نگی کے ساتھ ہی گریز کے محاذ جنگ پر پسپائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہزاروں میل کا علاقہ جو کئی ماہ کی مسلسل جان توڑ کوشش کے بعد حاصل کیا گیا تھاہا تھ سے نکلنے لگا۔ اس حوالے سے منظوم علی صاحب اپنے ایک مضمون ‘‘جنگ آزادی 1947-48ایک تجزیہ ’’ میں لکھتے ہیں کہ
‘‘ فرنٹیئر کنسٹیبلری اور ایڈیشنل پولیس جس تیز رفتاری سے محاذ جنگ پہنچے تھے اسی برق رفتاری سے واپس چلے گئے۔ وادی گریز کی پسپائی کی واحد وجہ فرنٹیر کنٹیبلری کی بزدلی تھی۔ جب ایڈیشنل پولیس کو گریز پھلاوائی، تاؤبٹ کی طرف بڑھنے کا حکم ملا تو محاذ جنگ کی طرف جانے کے بجائے براستہ کا غان پشاور پہنچے۔ فرار ہوتے وقت لوٹ مار ، قتل و غارتگری میں ملوث ہوئی۔ فرنٹئیر کانسٹیبلری کے ایک دستے کو جو سو افراد پر مشتمل تھا سکردو جانے کا حکم ہوا تو یہ حکم عدولی کر کے چلا س جا پہنچے۔ ’’
اس پسپائی کے بعد محاذ سے یہ نوٹ جی ایچ کیو کو بھیجا گیا۔
One of the main cause of the Gurais disaster was Habib Gul commander constabulery, request permission to be shot have personally investigated other matter ,please send Hassan urgently ( from Lt. Col. Jilani to Brig۔ Sher khan. 1-7-48)
گریس میں ہونے والی پسپائی کو دیکھتے ہوئے برگیڈیر شیر خان نے اصرار کیا کہ جلد ہی کرنل حسن خان کو گریز کے محاذ جنگ پر بھیجا جائے۔ اس حوالے سے کرنل حسن خان لکھتے ہیں کہ
‘‘گریس کے محاذ سے میں واپس گلگت اور گلگت سے کوہاٹ پہنچا اور وہاں مختلف ٹیسٹوں میں کامیاب ہونے کے بعدریگولر کمیشن حاصل کیا۔ بمشکل دس دن ہوئے تھے فورا دوبارہ منی مرگ سیکٹر کی کمان پر بھیجا گیا۔ میری غیرحاضری کے ان چند دنوں میں محاذ کا نقشہ بدل گیا تھا۔ بڑی جانی قربانیوں سے حاصل کئے گئے تمام علاقے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ تراگبل ، وجے گلی ، گنگا بل اوروادی گریس دشمن کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ وادی تلیل میں بھی دشمن پہنچ گیا تھا۔ مجاہد بددل ہو کر درہ برزل کے ا س پار پہنچے۔ ان حالات میں مجھے منی مرگ سیکٹر کی کمان مل گئی۔ ادھر درہ زوجیلا پر بھی اس وقت بھارت کا ایک برگیڈ تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔’’
ٹائیگر فورس کی دوسری بار کمان اور گریس کے علاقوں پر قبضہ:
کرنل حسن خان جن کی تمام محاذ جنگ پر طائرانہ نظر تھی جب دوربارہ واپس گریس بھیجے گئے تو انہوں نے از سر نو اس مہم کو منظم کیا۔ کرنل حسن خان کے مطابق
‘‘منی مرگ پہنچا تو بددل نفری جمع ہوئی میں نے تمام نئے افسروں بشمول اصغر نقوی اور انور واپس کردیئے۔ کیپٹن نیک عالم کسی طرح بھٹک کر بونجی گریزن کے ایک دستے کے ساتھ اس طرف آئے تھے۔ میں نے ان سے برادرانہ سلوک کیااور انہوں نے اس مشکل دقت میں میری ہمت بندھائی۔ ٹائیگر فورس نے دشمن پر دوبارہ حملے شروع کر دئیے۔ سب سے پہلے اننزبری کی ہزاروں فٹ بلند پیکٹ چھینی ، پھر دودگئی پر قابض ہوئے۔ اس کے بعد حب خاتون پہاڑ ہاتھ آیا اور آخر میں حسین وادی تلیل میں جا گھسے۔ یہ قتالہ عالم بعد میں ٹائیگر فورس اور دشمن کے فوجیوں کی بڑی قتل گاہ بن گئی۔ جب تراگبل اور گریس میں پسپائی شروع ہوئی تو اس دوران میجر ایم ایس قریشی تاؤبٹ پہنچے۔ انہیں میں نے دراس بھیج دیا۔ ان کے بعد لیفٹننٹ کرنل برہان الدین تاؤبٹ آئے۔ ان کے ساتھ باڈی گارڈ(فورس) تھی ان کے پاس بعض ناکارہ رائفلوں کے علاوہ تیر و کمان اور تلواروں سے لیس تھے۔ اگست ستمبر تک انہوں نے بڑی دلیری کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے کئی حملے اس وادی میں ناکام بنائے۔ اس کے بعد یہ استور چلے گئے۔ ان کی جگہ منی مرگ سے تاؤبٹ کی طرف فوری طور پر نفری بھیج کر اگلے مورچے سنبھالے اورخود برہان الدین کے ساتھ مٹن مرگ (سطح سمندر سے 15500فٹ بلند) کی طرف گیا۔ ’’
چترالی باڈی گارڈ کے ہمراہ کرنل برہان الدین کی وادی گریس میں آمدان کی زبانی:
کرنل برہان الدین اپنے ایک مضمون ‘‘جنگ آزاد ی ایک اجمالی خاکہ ’’ میں لکھتے ہیں
‘‘اگست 1948ء کو ہیزہائی نس کے حکم پر جہاد کشمیر میں شامل ہونے کے لئے باڈی گارڈکے ایک قافلے کے ساتھ وادی نیلم کی طرف روانہ ہوا۔ جب ہم گریز پہنچے تو اس وقت فرنٹئر کنسٹیبلری اور ایڈشنل پولیس تراگبل چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔ ان لوگوں نے وادی نیلم کی مقامی آبادی کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا۔ مسلمان آبادی کے ساتھ لوٹ مار اور انسانیت سوز سلوک کیا۔ یہ کہیں بھی جم کر نہیں لڑے۔ اس محاذ پر گھنے جنگلات اور پہاڑوں کے اوٹ میں مورچے سنبھال کر دشمن کے خلاف ایک طویل عرصہ تک جنگ لڑ سکتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب میں گریز پہنچا تو لوگ مایوس نظر آرہے تھے۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں نے باڈی گارڈ کو سب سے پہلے یہ حکم دیا کہ مقامی آبادی کے ساتھ صحیح برتاؤکرنا اور جائز قیمت پر لوگوں سے بھیڑ بکریاں اور سبزی وغیرہ خریدنا۔ ہمارے اس برتاؤ سے گریزی بہت متاثر ہوئے۔ ایک بار پھر ان کے حوصلے بلندہوئے۔ دوران جنگ دشمن کے خلاف مجاہدین کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرنے لگے۔ پھر مقامی لوگ میرے پاس آئے مجھے عالم سمجھ کر اپنے بچوں کے لئے دم دعا کرانے لگے۔
دوران جنگ ہم محاذ تراگبل تک تو نہیں پہنچے البتہ کنزلوان کے سامنے تاؤبٹ کے ایریا میں اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا ہمارے سامنے لوسر پہاڑ تھا۔ جس میں ہمارا پیکٹ تھا وہاں دسمبر تک ہم ٹھہرے۔ درمٹ کے اوپر دشمن کا پیکٹ تھا۔ اس جگہ پر دشمن کے کئی ایک حملے ناکام کر دیئے۔ لیکن بعض جگہوں پر دشمن کا دباؤ باڈی گارڈ پر زیادہ ہوتا گیا کیونکہ باڈی گارڈ بنیادی طور پر حرب وضرب کے اصولوں سے ناواقف تھے۔ اس دوران ہنزہ کی کچھ نفری میرے پاس آئی۔ ان کی آمد پر ہم نے بغتورپر حملہ کرنے کا پروگرام بنایالیکن ہنزہ پلاٹون کی کمزوری کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئے۔’’
کرنل برہان الدین مزید لکھتے ہیں
‘‘کرنل حسن خان کو گریز محاذ سے بلوا کر پنڈی بھیجنا ایک سازش تھی۔ اس جنگ میں ہائی کمان سے جو سنگین غلطی سر زد ہوئی وہ یہ تھی کہ حسن خان کو تراگبل سے بلا کر راولپنڈی بھیج دیا گیا۔ حسن خان کے اس محاذ سے جانے کے بعد تراگبل دشمن کے قبضے میں چلا گیا۔ اگر کرنل حسن خان اس محاذ پر ہوتے تو تراگبل کبھی ہمارے ہاتھ سے نہیں جاتا۔ میں یہاں پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت بعض سینئر افسر اس مخمصے میں تھے کہ کہیں کرنل حسن خان سری نگر تک پہنچ کر جنگ کا سارا کریڈٹ خود نہ لے لے اور بعض لوگوں کے شخصی ٹکراؤ کی وجہ سے ہمیں اس محاذ پر بہت سارے علاقے سے محروم ہونا پڑا۔
اگرچہ انقلاب گلگت کے شروع میں میں خود گلگت میں نہیں تھا۔میں چشم دید گواہ تو نہیں لیکن اس وقت گلگت میں موجود کئی ایک فوجی افسروں سے ملاقات کے دوران مجھے یہ بتایا گیا کہ ڈوگرہ افواج کے خلاف کامیاب جنگی حکمت عملی مرتب کرنے والا شخص مرزاحسن خان تھا۔ اس میں بابر خان وغیرہ اور دیگر افراد بھی سر گرم عمل تھے ان کی کوششوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کرنل جیلانی کے غلط فیصلے ہی تو تھے۔ جس کی بنا پر تراگبل سے لے کرلیہ تک ہمیں شرمناک شکستوں سے دوچار ہونا پڑا۔ کرنل جیلانی نے reinforcementکو پھلوائی ،تاؤبٹ ،کنزلوان وغیرہ کی طرف بھیجنے کے بجائے لیہ کی طرف بھیج دیا۔اس محاذ پر ہائی کمانڈ نے کرنل حسن خان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ اگر اس سیکٹر پر کرنل حسن خان کے ساتھ تعاون ہوتا تو آج اس محاذ کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ کرنل حسن خان کے ساتھ میری پہلی ملاقات محا ذ جنگ میں ہوئی اس دوران جنگ میں ایک دوسرے سے کئی دفعہ ملنے کا موقع ملا۔ ان ملاقاتوں کے دوران میں حسن خان سے متاثر ہوا۔ وہ ایک ایماندار جفاکش اور دلیر انسان تھے۔ اس کے بعد ان سے پھر کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ’’
کرنل برہان الدین :
کرنل برہان الدین کا تعلق چترال سے تھے۔ پرنس کالج ویلز اور انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون سے عسکری تعلیم و تربیت لی۔ 1938ء سے 1941تک ائیر فورس میں خدمات سرانجام دیں۔ اس کے بعد پیدل فورس میں منتقل کر دیا گیا۔ ووسری عالمگیر جنگ میں جاپان میں دوران جنگ دشمن کے گھیرے میں آئے۔ سقوط سنگا پور کے بعد دہلی لال قلعہ میں تعینات ہوئے۔ بعدا زاں آئی این اے میں شمولیت کی وجہ سے آپ پر مقدمہ چلا۔ مقدمہ سے فارغ ہو کر چترال آئے جہاں اس وقت کے چترال کے حاکم مہتر مظفرالملک نے چترالی فورسز کا کمانڈر انچیف تعینات کیا۔ انقلاب گلگت کے بعد مظفرالملک کے حکم پر چترالی اسکاؤٹس ،چترالی باڈی گارڈ اور عوام نے بھی اسکردو سے وادی نیلم تک ہونے والی جنگ میں حصہ لیا جس میں متعدد افراد شہید بھی ہوئے۔ کرنل برہان الدین بھی مظفرالملک کے حکم پر وادی گریس میں چترالی باڈ گارڈ لے کر آئے اور تاؤبٹ سے کنزلوان تک وادی نیلم کے دفاع کے لئے اگلے مورچوں میں دفاعی جنگ لڑی۔
کرنل برہان الدین کے دو بھائی متاع الملک اور غلام محی الدین بھی جذبہ جہاد کے تحت جنگ میں شریک ہوئے۔ کرنل متاع الملک جنہیں فاتح اسکردو کہا جاتا ہے نے چار فوجی افسروں سمیت 130ڈوگرہ فوجیوں کواس دوران گرفتار کیا۔ جو کشمیر کی جنگ میں یقینا ایک اہم کامیابی تھی۔ لیکن اختتام جنگ پر غلط رپوٹوں اور ذاتی رنجشوں کا شکار ہوئے اور متاع الملک کی حوصلہ افزائی کے بجائے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔
قتالہ عالم وادی تلیل :
وادی تلیل لداخ اور کرگل سیکٹر کے حوالے سے اہم دفاعی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سے ہو کر کئی راستے دراس تک جاتے تھے لہذا ان راستوں سے انڈین آرمی کو روکنا ازحد ضروری تھا۔ جس کی ذمہ داری ٹائیگر فورس کو سونپی گئی۔ اس وادی میں مجاہدین اور انڈین آرمی کو بہت زیادہ جانی نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑا۔کرنل حسن خان لکھتے ہیں
‘‘میں نے منی مرگ سیکٹر کی کمان سنبھالنے کے فورا بعدتلیل میں اپنی نفری بھیجی اور اس پر قبضہ کیا۔ لیکن کیپٹن نیک عالم جس نے اس پر قبضہ کیا تھا اس دورافتادہ وادی میں ٹہرنا ضروری نہ سمجھ کر واپس حب خاتون پہاڑپر آگئے تھے۔ سب سے پہلے لیفٹننٹ کرنل فقیر سنگھ نے کارگل سے بھاگ کر اپنی نفری کے ساتھ اس طرف کا رخ کیا۔ اسی دران میں نے ٹائیگر فورس سے بونجی گریژن کی چند پلا ٹونیں اس طرف روانہ کیں فقیر سنگھ ایک سبزہ زار میں اترا ہی تھا کہ اس پر شب خون پڑا۔ وہ چند سپاہیوں کے ساتھ دایا ں کان گولیوں سے چھدوا کر اور بایاں ہاتھ بطور توبہ پکڑ کر دوبارہ اس طرف نہیں آیااور سری نگر پہنچا۔ اس کا انتقام لینے کے خیال سے بعد میں کرنل کرپال سنگھ اس طرف آئے۔ صوبیدار اکبر خان اس وقت غفلت میں بمع تمام نفری مارے گئے۔
منی مرگ میں یہ جانکاہ خبر سن کر کر پال کی خبر لینے کے لئے نائب صوبیدار محمد لعل کو اس طرف تازہ نفری کے ساتھ روانہ کر دیا۔ اس نے تلیل پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ بعد میں مقامی آبادی نے اسے قتل کر دیااور انڈین آرمی کو چپکے سے دعوت دی اور محمد لعل کے مارے جانے کی تصدیق ہوئی۔ اس کی نفری سلامت منی مرگ آپہنچی۔ یہ واقعہ جنگ بندی کے بعد پیش آیا۔ اس طرح یہ وادی ہاتھ سے نکل گئی۔ ’’
وادی تلیل میں ہونے والے معرکہ کے چشم دید گواہ عزت خان کا بیا ن:
درج بالا واقعہ کے ایک چشم دید گواہ عزت خان ہیں جو اسکاؤٹس کے اس گروپ میں شامل تھے جس نے پہلے کرنل فقیر سنگھ اور اس کی پلاٹون پر وادی تلیل میں شب خون مارا اور بعد ازاں غفلت میں ہونے کی وجہ سے کرنل کرپال سنگھ کے اچانک حملے کا شکار ہوئے۔ عزت خان کا تعلق استور کے علاقہ دشکن سے ہے اور الحمد للہ یہ اس وقت بھی حیات ہیں۔ ان کے مطابق اس واقع کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ انڈین آرمی سونامرگ کے راستے دراس میں داخل ہونا چاہتی تھی اسے روکنے کے لئے چالیس افراد پر مشتمل ایک پلاٹون وادی تلیل میں بھیجی گئی اور یہ پلاٹوں جس میں عزت خان بھی شامل تھے رامن ندی کے اطراف میں خیمہ زن ہوئی جہاں سے راستہ دراس جاتا ہے۔ اس پلاٹون نے سونا مرگ میں تلیل جانے والے راستے کا سب سے اہم پل اڑانا تھا اور پھر اس مقام پر گھات لگا کر ادھر آنے والے دشمن کو دراس کی طرف جانے سے روکنا تھا۔ پلاٹون اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی اور انڈین آرمی دراس میں اس وقت داخل نہ ہو سکی۔ اسی پلاٹون نے فقیر سنگھ کو اس کی پلاٹون سمیت عبرت ناک شکست دے کر زیادہ تر فوجیوں کو قتل کر دیا۔ لیکن پھر اچانک کرپال سنگھ کے حملے کا شکا ر ہو گئی۔ عزت خان کے مطابق چالیس میں سے پچیس اسکاؤٹس رامن ندی کے قریب شہید ہوئے جبکہ 15اسکاؤٹس جان بچانے میں کامیاب ہوئے جن میں عزت خان بھی شامل ہے۔ شہید ہونے والے 25مجاہدین کے لئے دوبڑی اور لمبی قبریں کھودی گئیں۔ ایک قبر میں 12مجاہد اور دوسری قبر میں 13مجاہدین کو دفنا یا گیا۔ اسلامی جنگوں میں شہدا ء کی تدفین کا یہ طریقہ کار بہت قدیم ہے۔ پشاور میں صحابی رسول حضرت سنان بن سلمی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی قبریں آج بھی موجود ہیں جو بہت ہی زیادہ طویل ہیں۔ ایک لمبی قبر میں کئی شہداء دفن ہیں۔ دیکھنے والے کو بظاہر ایک قبر دکھائی دیتی ہے۔ یہی کچھ رامن ندی کی وادی میں شہید ہونے والے اسکاؤٹس کے ساتھ کیا گیا۔
(راوی عبدالمجیب فانی۔ ساکنہ دشکن استور )
عزت خان کے اس بیان کی طرف اس رپورٹ میں بھی اشارہ ہے جو ائیر کمانڈر میجر محمد اسلم خان نے جی ایچ کیو کے حوالے کی ان کے مطابق
Bandiproa force to continue patrolling in their area with 150 men while 100 men were to be detached & sent via Gurais immediately out of this force of 100. It was 4 platoons were to reach the area of Dras via Kabul Gali on the morning of 10 May & block all approaches from the Direction of Zojila . The other two platoons were to make patrolling bases at Wangat and near RAMAN GALI & on 10 May destroy as many bridges along the road Kangan-Sonamarg as possible and thereafter keep on harrasing enemy troops movement along this line of communication.
وادی گریز پر آخری حملہ اور جنگ بندی:
وادی تلیل میں رامن ندی کے واقعہ کے بعد کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کرنل حسن خان لکھتے ہیں .
‘‘جی ایچ کیو نے مطلع کیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ او ر شیخ عبداللہ تین دن بعد گریس میں دشمن فوج کے جنرل کے مہمان بن رہے ہیں۔ گریز میں اس وقت دشمن کے دو برگیڈ تھے۔ میں نے نیک عالم کے ساتھ ڈیوٹیاں بانٹ لیں۔ اسے دو کمپنیوں کے ساتھ بوقت شام حب خاتون پہاڑ کے پیچھے سے وادی گریز کے جنوب کی طرف واقع جنگل پر قبضہ کرنے کے لئے بھیج دیا۔ تین دن بعد اسے بوقت شام حب خاتون پہاڑ سے ہماری گولہ باری کانتظار کرنا تھا۔ جب یہ ختم ہوتی تو اسے دشمن کے جنرل ہیڈ کوارٹر پر وادی میں ہلہ بول کر افراتفری پھیلانا تھی اور مجھے سامنے سے دریائے گریز (دریائے نیلم ) کو پایاب جگہ سے پا رکر کے وادی پر قبضہ کرنا تھا۔ نیک عالم کئی گھنٹے بعد اپنی منزل مقصود کو پہنچا۔ اس لئے حملہ کی اسکیم پر عمل نہ ہو سکا۔ اس میں غلط نقشوں کا قصور تھا’’۔
صور اسرافیل کی طرح یکم جنوری 1949ء کو اچانک جنگ بندی کا بگل دونوں طرف سے بج گیا۔ متحارب فوجیں خالی جگہوں پر قبضے کے لئے دوڑیں۔ میں نے بھی منی مرگ ،دودگئی ،گلتری ، تاؤبٹ اور تمام وادی کشن گنگا پر کیرن تک دوبارہ قبضہ کرلیا .’’
یوں وادی گریس تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ وادی گریس ترابل سے ساندیال چوراں تک، اورپوری وادی تلیل انڈین آرمی کے تسلط میں رہ گئی جبکہ ساندیال چوراں سے آگے دودگئی سے چلم تک کا علاقہ ٹائیگر فورس کے ذریعہ استورکا حصہ بن گیا اور دودگئی پہاڑ کی مغربی جانب تاؤبٹ سے کیل تک کا علاقہ تحصیل کرنا کا حصہ بنا دیا گیا۔