Tarjuman-e-Mashriq

گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں

آج مجھے حسرت موہانی کے یہ الفاظ بہت یاد آرہے ہیں ، میں ان  کی پسندیدگی کی وضاحت کرتا ہوں مگر آپ الفاظ پر غور کریں

گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک

میری یہ خوش قسمتی تھی کہ میں نے پرائمری کلاسز ماسٹر فضل حسین سے پڑھیں۔ماسٹر فضل حسین خوش  لباس اور نفیس گفتگو کرنے والے  ہمارے سکول کے چند ایک ان اساتذہ میں سے تھے جو شستہ اردو بولتے تھے۔جبکہ زیادہ تر اساتذہ کی اردو ایک منٹ بعد ختم ہو جایا کرتی تھی یا سرے سے اردو بولنے کا وہ تکلف ہی نہیں کیا کرتے تھے۔ماسٹر فضل حسین کا گھرانہ دیندار گھرانہ ہے۔ان کے والد بابا فیروز دین درویش صفت بزرگ تھے۔سارے علاقے کے لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔۔میرے وہ  چند اساتذہ کہ جنہوں نے میری زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا میں ماسٹر فضل حسین کا نام پہلے آتا ہے ۔ ان کے بعد ہیڈ ماسٹر صغیر گلشن اور کشمیر ماڈل کالج کے پروفیسر ریاض الرحمن قریشی ہیں جن کی وجہ سے میں یونیورسٹی تک پہنچا۔ آج صبح جب مجھے ماسٹر فضل حسین کی وفات کا پتہ چلاتو میں چکرا گیا۔بالکل ویسا ہی دکھ محسوس ہوا جیسا میں نے اپنے والدین کی جدائی کے وقت محسوس کیا تھا۔ ٍابتدائی کلاسز میں ریاضی میرے لئے مسئلہ تھا مجھے نہ  کبھی اُقرے سلیٹ پر نکالنے آئے میں  نہ  ہی جمع نفی کر سکتا تھا اور ذواضعاف”عقل“ آیا اور نا ہی چھوٹی بڑی اور درمیانی بریکٹ کو سمجھ پایا۔جب ریاضی کا پیریڈ آتا تو میں چھپ کر لڑکوں کے درمیان دبک جاتا دعا کرتا کہ کبھی مجھ پر ماسٹر فضل حسین صاحب کی نظر نہ پڑے۔ جیسے حسرت کے بے مثل استاد میر تھے ویسا ہی کمال میرےان استاد کا  تھا  جنہوں نے ایک روز مجھ میں اعتماد کا وہ ایندھن بھرا کہ میری کایا ہی پلٹ گئی. یہ میری زندگی بدلنے والا واقع تھا جو شاید آپ کو معمولی لگے مگر ایک ڈرے، سہمے اور سکول سے خوف کھانے ولے طالب علم کے لیے زندگی بدلنے والا تجربہ تھا . آج میں خود استاد ہوں اور مجھے علم ہے کہ بچوں میں  تعریف کے ساتھ اعتماد لانا کتنا اہم ہے . آج میں آپ کو اپنی کلاس روم میں لیے  جاتا ہوں جہاں میں دوسرے لڑکوں کے درمیان دبک کر چھپا بیٹھا تھا اور  ماسٹر صاحب نے  بلیک بورڈ پر  سوال حل کیا اس کے بعد انہوں نے میر ا نام پکارا "مقبول اٹھو ،تم بڑے غور سے بلیک بورڈ دیکھتے رہتے ہو اور یقینا تمہیں سوالات سمجھ بھی آتے ہونگے،  آگے آو مقبول، آگے آو”۔ اپنانام سن کر مجھ میں پتہ نہیں کہاں سے اعتماد آگیا ایسا لگامیرے دماغ کا میں کسی نے روشنی اور آگاہی کا دروازہ کھول دیا ہو ۔مجھے ہر سوال سمجھ آنے لگا۔مجھے پڑھنا اچھا لگنے لگا اس کے بعد سے میں نے سکول سے بھاگنا ، سکول سے ڈرنا اور راستے  میں چھپنا بھی چھوڑ دیا۔ یہ تینوں اساتذہ میری دعاؤں میں ہمیشہ شامل رہے ہیں۔میری بد قسمتی تھی کہ میں ہیڈ ماسٹر صغیر گلشن کو ایم ایس سی کرنے کے بعد ان کی زندگی میں نہ مل سکا۔ کرونا کے دنوں میں جب زندگی رک سی گئی تو میں نے ارادہ کیاکہ غلام حسن سے ملنے اس کے گھر جاؤں گا۔وہیں پر ماسٹر فضل حسین صاحب سے میری ملاقات ہو گئی بڑی طویل گفتگو ہو ئی میں نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا اور بتایاکہ میری تعلیم کی ابتدائی اینٹ انہوں  نے ہی رکھی تھی۔اس دن ہم نے کھانا اکٹھے  کھا یا۔اس دن میرے ایک اور استاد ماسٹر رفیق انور بھی وہاں آگئے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ جو ان کے چھوٹے بھائی مرحوم ماسٹر نبی بخش اور وزیر تعلیم محمد مطلوب انقلابی مرحوم  کے متعلق تھا، یہ دونوں آپس میں گہرے رفیق تھے .  کہنے لگے وہ  دونوں کھوئیرٹہ سے پیدل کھوڑ جبریاں آئے۔گرمیوں کے دنوں میں وہ چھت پر چارپائی ڈالے خوش گپیوں میں مشغول  تھے۔ایسے میں مطلوب انقلابی، نبی بخش مرحوم سے مخاطب ہوکر کہنے لگے”نبی بخشا جدوں میں منسٹر بنساں،جدھروں اساں  آئے آں اس راہ پر میں سڑک بناساں“( جب میں منسٹر بنوں گا تو جس رستے سے ہم آئے ہیں وہاں میں سڑک بناؤں گا ).  تب کھوئیرٹہ سے دوسری گلی تک ہی سڑک بنی تھی وہاں سے ہم میلوں پیدل سفر کرتے تھے ہمارے لئے یہ بھی ایک معجزے سے کم نہ تھی۔ ماسٹر صاحب نیا کہا ، تب  کھوڑ جبریاں  تک سڑک لانا ایک دیوانے کا خواب ہی تھا ، ہماری نسلیں پیدل منوں سودا سلف سروں پراٹھائے اس دنیا سے گزر گئیں تو  ایسا کیسے ممکن  ہو سکتا تھا ۔ 20سال بعد اللہ تعالیٰ نے محمدمطلوب انقلابی کو کامیابی دی وہ منسٹر بنے تو وہ اپنی کہی باتیں بھولے نہیں جن راستوں پر وہ پیدل چلے انہی راستوں پر انہوں نے شاندار سڑکیں تعمیر کروائیں۔مجھے اس دن سمجھ آئی کہ  محمد مطلوب انقلابی کی سوچ بھی انقلابی تھی۔ میں جب ناکام ہو کر انگلینڈ سے واپس آیا تو ایک دن گاڑی میں مجھے ماسٹر نبی بخش مل گئے۔  وہ مجھے  کہنے لگے اب دوبارہ تم باہر جانے کی کوششیں کر رہے ہو میرا مشورہ ہے کہ تم نہ جاؤ دیکھو ہم سب نے ایک دن مر جانا ہے پیسہ ہی سب کچھ نہیں کچھ اپنے علاقے کا تو سوچو. ماسٹر صاحب کی تجویز تو اچھی تھی کہ اپنے علاقے میں رہ کر کام کیا جائے ، اپنے لوگوں کا سوچا جائے مگر  جب سے میں واپس آیا  تھا میرا تعارف ہی یہی  تھا کہ یہ مقبول ہے اور انگلینڈ سے ناکام ہو کر واپس آیا ہے اب یہ مکمل تباہ  ہو چکا ہے۔ یہاں بھی میرے کام ایک استاد ہی آئے . گو کہ یہ استاد نہیں طبیب تھے  مگر وہ میری نبض پر ہاتھ رکھ کر حال دل پڑھ لیتے تھے . برطانیہ بدری کے بعد ایک دن میں اپنے بچوں کوڈاکٹر فرید چائلڈ اسپیشلسٹ کے پاس لے کر گیا تو انہوں نے مجھ سے پوچھاآج کل کیا کر رہے ہو؟ میں نے اپنی مایوس داستان سنائی تو کہنے لگے مقبول تم جو مرضی کرو  مگر میری ایک بات سنو کسی اپنے پرائے یا سیاسی لیڈر سے کبھی التجا مت کرنا .   ڈاکٹر فرید نے صرف دو بار  میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ  باتیں کیں ، کچھ مشورے دیے کہ جو آج بھی میرے ساتھ مشعل راہ ہیں . پہلی بار جب میری والدہ کا انتقال ہوا اور اب جب میں برطانیہ سے ناکام لوٹا تھا . میری ساری کہانی سننے کے بعد انہوں  نے بس اتنا  کہا "مقبول  کبھی کسی کے سامنے التجا مت کرنا ".  زندگی میں جب مشکل وقت آتا ہے  تو میرے کانوں میں ڈاکٹر فرید کے یہی الفاظ گونجتے ہیں”مقبول  کبھی کسی کے سامنے التجا مت کرنا ” اور جب مجھ میں اعتماد کی کمی آتی ہے تو لگتا ہے ماسٹر فضل حسین کہہ  رہے ہیں "مقبول اٹھو ،تم بڑے غور سے بلیک بورڈ دیکھتے رہتے ہو اور یقینا تمہیں سوالات سمجھ بھی آتے ہونگے،  آگے آو مقبول، آگے آو”، اور میں اٹھ کھڑا ہوتا ہوں. ماسٹر فضل حسین اپنے پیچھے سینکڑوں شاگرد چھوڑے جا رہے ہیں جو بیشک  ان کی بخشش کا سبب بنیں گے۔ماسٹر فضل حسین جب بھی ملتے ، پوچھتے کیا کررہے ہو ، انہیں جب بھی کوئی طالب علم اپنی کامیابی یا زندگی میں ترقی  کا بتاتا تو وہ  تعریف کرتے تو کہتے  ”شاباش  بیٹا،  اچھے بچوں کے اچھے کام“. ماسٹر نبی بخش مرحوم محمد مطلوب انقلابی،ڈاکٹر فرید اور ماسٹر فضل حسین یہ سارے درویش تھے۔
Exit mobile version