میں صبح آٹھ بجے ہی نیو اسٹریٹ اسٹیشن پہنچ گیا ، یہاں گاڑی کھڑی کرنا مشکل تھا اس لیے میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح روپ کو ائیر پورٹ اسٹیشن پہ اتر جانے کا کہہ سکوں مگر اس کا فون بند آ رہا تھا ، میں نے ایک بار وائس میل پیغام چھوڑا پھر کچھ دیر انتظار کیا جب کوئی جواب نہ آیا تو میں نیو اسٹریٹ ہی چلا گیا . مجھے انتظار اور سفر دونوں کی عادت ہے . اب تو میں سفر اور انتظار کو ایک قابلیت سمجھتا ہوں. دونوں میں خیر کا پہلو ہے اور دونوں کے لیے آپ کے پاس صبر کے سوا چارہ نہیں ہے . ادھر ٹرین اسٹیشن پر رکی اور ساتھ ہی روپ کی کال آ گئی .
"میں ائیر پورٹ اسٹیشن پر بیٹھی ہوں کدھر ہیں آپ ؟ ” میں پھر جلدی جلدی سے پارکنگ کی طرف بھاگا اور ائیر پورٹ اسٹیشن پہنچا – روپ کی اگلی ٹرین گلاسگو کے لیے شام پانچ بجے تھی اور مجھے آج پورا دن اس کے ساتھ گزارنا تھا – ہم پچھلے سال اکتوبر میں ملے تھے تب بھی ہماری ملاقات لندن کے ایک ریلوے اسٹیشن پر ہوئی تھی .
روپ میری ان دنوں کی رازدار ہے جن دنوں میں اپنی ذاتی پریشانیوں کی وجہ سے ہمت ہار بیٹھا تھا – یہ پیرس سے لندن یا جالندھر سے کشمیر کا رشتہ نہیں بلکہ یہ دو ایسے انسانوں کی مسافت ہے جس میں ہم دونوں بھاگنے کی کوشش میں غلام گردشوں میں ایسا بھٹکے کہ اب جس روز ہمیں تھوڑا سکون ملتا ہے پاؤں آواز لگاتے ہیں ” خیر ہے ، زندہ تو ہو”؟ ہم اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور چلنے لگ جاتا ہیں . یہ سفر نہ اس نے چنا اور نہ میں نے چنا ہے اور نہ اس کی منزل ہم دونوں کے گمان میں ہے ، سفر جاری ہے اور ہم سالوں سے سفر میں ہیں . روپ کے مطابق اس سفر میں دو قسم کے مسافر ہمارے ہم سفر ہیں ، ایک وہ جو مان چکے ہیں کہ احکمات کے سامنے دلیل نہیں دی جا سکتی. یہاں” کیوں ” کی گنجائش ہی نہیں اور دوسرے وہ ہیں جو کسی پہاڑ ، آتش کدے ، کسی ندی ، کسی مورت ، کسی شجر سے "کیوں” پوچھ بیٹھے اور رک گئے .
ہم سب اپنی اپنی غلام گردش کے معمار ، محافظ اور اسیر ہیں کیونکہ یہی وہ نقطہ ہے جس کے گرد ہم نے دائرے بنائے اور ان میں بھٹکتے بھٹکتے زندگی گزار ڈالی . ذاتی حادثات انسان کو کمزور کر دیتے ہیں اور پھر اس کے پاس دو رستے دو اختیار بچتے ہیں ، ایک رستہ اس کو راہ حقیقت پر لے جاتا ہے اور دوسرا رستہ حقیقت سے بہت دور کسی ایسے میلے میں جہاں انسان بظاہر تو فرار کے لحاف میں چھپ بیٹھتا ہے مگر اس کا یہ لحاف اسے خاموشی سے چاٹ جاتا ہے اور جب تک اسے احساس ندامت ہو وہ بہت دور نکل چکا ہوتا ہے .
جدائی و فراق کے سلطان شو کمار بٹالوی نے روپ کو بہت متاثر کیا تھا اور وہ اکثر مجھے کہتی ” اے شبدھ خون وچے ڈبے گلاب ہن، جنہاں وچ خوبصورتی وی ہے تے برہا دا دکھ وی ” ( یہ الفاظ خون میں ڈوبے گلاب ہیں ، جن میں خوبصورتی بھی ہے اور جدائی کا دکھ بھی )
روپ اسٹیشن پر بیٹھی میری منتظر تھی ، میں جیسے ہی اس کے سامنے آیا وہ مسکرائی اور بولی . ” آج تہواڈی خوب دوڑ لغی فر ” ، میں بھی مسکرا دیا . ہم نے یہیں کوفی کا کپ پیا اور دن گزارنے کے کے لیے ایک مقام کا انتخاب کیا . جہاں ہم بیٹھے تھے یہاں سے کچھ فاصلے پر کینیل ورتھ کا قلعہ ہے جہاں ہم نے دن گزارنے کا فیصلہ کیا – مجھے میری پیشہ ورانہ زندگی میں سفر کے بہت مواقع ملتے رہتے ہیں اور میں ایسے کئی کھنڈرات کو دیکھنے کا وقت نکال لیتا ہوں جن کی بنیادوں میں تاریخ کی ان کہی داستانیں دفن ہیں – ہر دور کےتاریخ دانوں اور کہانی نویسوں نے تاریخ کے ساتھ کھیلا ہے. میں تو اکثر ایسے ویران کھنڈرات میں جا بیٹھتا ہوں اور کچھ لمحے ان فصیلوں کے کرب کو محسوس کرتا ہوں –
کینل ورتھ پہنچ کر روپ نے مجھ سے پوچھا کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں ؟
میں روپ کو قلعے کے سامنے ایک بینچ سے ایک بڑی کھڑکی دکھاتے ہوئے بولا ” یہ قلعہ جہاں بہت سی سیاسی و حربی وجوہات سے اہمیت رکھتا ہے وہیں اس کی تاریخ یک ناکام سویامور کی داستان کی راز دار بھی ہے ، سنو گی ؟ ”
"ہاں ، ہاں کیوں نہیں "– ہم نے سڑک پار کی اور ایبے فیلڈ کے دوسری جانب ایک کیفے میں بیٹھ گئے . یہاں کچھ نوجوان مقامی سوئمنگ پول بند ہونے پر سراپائے احتجاج تھے . ہم نے کچھ کھانے کے لیے آڈر کیا تو روپ بولی ” تسیں کہانی سنا رے سیں ، کسے ناکام سویامور دی”
"ہاں یاد آیا ، 1575 میں ملکہ الزبتھ اول کینیل ورتھ قلعے میں رابرٹ ڈڈلی، لیسٹر کے ارل کی دعوت پر یہاں 19 دن قیام پزیر رہی. ملکہ کے دورے سے پہلے رابرٹ ڈڈلی نے ملکہ کو متاثر کرنے کے لیے اپنے قلعے کی تزئین و آرائش میں اپنا سب کچھ لٹا دیا ، وہ ملکہ کے دل میں گھر کرنا چاہتا تھا ، اس نے صرف ایک ہاں کی آرزو میں یومیہ ہزار پاونڈ خرچ کیے جو آج شاید لاکھوں پاونڈ کی حیثیت رکھتے ہیں ، مگر رابرٹ ڈڈلی کے مقدر میں "ہاں ” نہیں تھی . کہتے ہیں اس نے قلعے کا دروازہ اونچا کروایا ، نئے اور مہنگے درخت لگوائے ، ایک مینار تعمیر کروایا اور ملکہ کی سہولت کے لیے خود کو مشکلات میں ڈال دیا مگر وہ ملکہ کا دل جیت نہ پایا ”
روپ نے ابھی تک کوئی رد عمل نہ دیا تو میں نے خود پوچھ لیا کہ کیا رابرٹ ڈڈلی کی ناکام محبت کی داستان بورنگ ہے ؟ روپ مسکرائی اور بولی ” نہیں میں سوچ رہی تھی کہ نہ رابرٹ رہا اور نہ ملکہ مگر یہ فصیلیں، وہ مینار ، یہ کھڑکیاں اور وہ باغ آج بھی ہے اور یہ کہانی مگر ان سب میں ایک کمزور کڑی ہے جسے آپ بھی سمجھ نہیں پائے ؟
وہ کیا ؟ میں نے پوچھا
ڈڈلی کو محبت شاید ملکہ سے تھی الزبتھ سے نہیں – اگر وہ یہ سب کرنے کے بجائے صرف الزبتھ سے کہہ دیتا کہ مجھے اپنی زندگی کے سفر میں ایک ہم سفر چاہیے تے شاید اسے یہ سب نہ کرنا پڑتا مگر چونکہ یہ ایک ملکہ کو متاثر کرنے کی کوشش تھی جو یقینا ناکام ہی ہونی تھی . دیکھیں آپ اس سے کم کوشش کریں اور حقیقت یا مجاز کی دنیا میں اپنا سچ کسی سے کہیں تو آپ کو ناکامی نہیں ہو گی – زندگی ایک تلاش کا سفر ہے ، جس میں صرف مسافر کو سفر کرنا ہے . اسے روشنی کا سفر بھی کہا جا سکتا ہے ، یہ بہت کم لوگ طے کر پاتے ہیں ، کسی بھی لالچ ، عہدے کے رعب اور مادی کشش کے بغیر ، جیسے آپ کے رومی کشمیر نے کہا تھا ویسے ہی یہ سفر ایک دعا بن جاتا ہے اور مسافر کی مانگ ایک ہی ہوتی ہے
بال چراغ عشق دا، میرا روشن کردے سینہ
دل دے دِیوے دِی رُشنائی، جاوے وِچ زمیناں
کبھی کبھی کچھ سوالات، کچھ مناظر انسان کو بہت تنگ کرتے ہیں جیسے کہ یہ ہمارے آس پاس بکھرے ہوئے رنگ ، ان رنگوں سے ابھرنے والے نقوش اور ان نقوش سے فطرت میں یہ ہلچل ، کیا یہ سب ہماری ذات کے گرد ابھرنے والے معجزات نہیں ہیں ؟ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اس کینوس پر ہم کہاں ہیں ؟ بس اسی سوال کی تلاش میں آج ہم یہاں لائے گئے ہیں، ہمارے اپنے بس میں کیا ہے ، ڈڈلی نے دنیا کے تمام وسائل صرف ایک ملکہ کا دل جیتنے میں لٹا دیے اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے . ذات سے سلطنت تک ہر شخص کہیں نہ کہیں کسی کو متاثر کرنے میں لگا ہے .”
"ہاں یہ تو ہے ! ” میں نے اقرار میں گردن ہلائی
” ساڈے بابا جی کہندے سن ، یہ کائنات ایک نظام کا حصہ ہے اور ہم سب وہ کل پرزے ہیں جو اس مشین کو چلا رہے ہیں ، بس ہمیں یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اس کائناتی نظام میں کہاں کھڑے ہیں ؟ مجھے لگتا ہے کہ کائنات سے ذات کو نہیں نکالا جا سکتا ، آپ چاہیں تو ان عوامل کی تلاش ذات میں کریں یا کائنات کو ذات بنا لیں .خالق نے تخلیق آدم سے یوم حساب تک سب کچھ اس ذات اور کائنات میں رکھ دیا ہے ، جیسے نزول دعا اور قبول دعا میں ایک فاصلہ ہے ایسےہی کائنات اور ذات کے پیچیدہ راز ہیں”.
میز پر کھانا آ گیا – ہم نے کھانا کھایا اور پھر سے ایک ایک کوفی کا کپ پیا اور دیر دیر اس کیفے سے قلعے کو دیکھتے رہے – گھڑی کی سوئیاں برق رفتاری سے چل رہی تھیں ، میں نے روپ کو ریلوے اسٹیشن اتارا اور وہ اسکاٹ لینڈ کے لیے روانہ ہو گئی، جانے سے پہلے اس نے اپنے بیگ میں سے ایک خوش نما پیکٹ نکالا جس پر لکھا تھا ” ایک مسافر کہانی نویس کو سالگرہ مبارک " دنیا کے اس جھمیلے میں مجھے یاد ہی نہیں رہا تھا کہ آج چودہ اگست کا دن ہے اور آج میں نے اپنے سفر کا ایک اور سال مکمل کر لیا تھا . پیکٹ کھولا تو کتاب کے میں لکھا تھا
محبت ذات ہوتی ہے
محبت ذات کی تکمیل ہوتی ہے
(فرحت عباس شاہ)