اچھے لوگ اگر دنیا میں نہ بھی رہیں تو عقل مند قومیں کبھی بھی بُرے لوگو ں کی قیادت قبول نہیں کرتیں۔ ہمااگر دنیا سے معدوم ہو جائے تو کوئی بھی شخص اُلو کے سائے میں آنا پسند نہیں کرئے گا۔ شیخ سعدی ؒ اگر آج زندہ ہوتے تو ضرور لکھتے کہ یہ نصحت اہل پاکستان کے لئے نہیں۔ ہماری قوم نے قائد اعظم ؒ کے بعد جس طرح کی قیادت کو سر پر بٹھایا اور ان کے حکم پر سجدہ ریز ہوتے آئے شاید دنیا کی کسی قوم یا قبیلے کو یہ اعزاز حاصل نہیں اور نہ ہی کوئی قوم یا جانداروں کی کوئی نسل یا اُمت ایسی قیادت قبول کرتی ہے۔حشرات الارض کی بھی اُمتیں ہیں جن کا ذکر قرآن حکیم میں ہوا ہے۔ زمین کے مختلف حصوں پر یہ مخلوق آباد ہے اوراُن کے قائد، لیڈر، ملکائیں اور بادشاہ بھی ہیں جن کے حکم پر وہ ترک وطن کرتے ہیں، دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں، رزق کی تلاش کرتے ہیں اوراپنی حفاظت کرتے ہیں۔ مخلوق عرضی کے قائدین اچھی اور منفرد صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اُن میں شعوری اور لا شعوری قوتیں اپنے ہم نسلوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں۔جسمانی لحاظ سے وہ قوی اور مظبوط ہوتے ہیں، وہ دلیر، جرات مند اور دیگر قائدانہ اُصاف کے علاوہ ہر وقت باخبر، چوکنے اور چُست رہتے ہیں۔سب سے آگے اور پہلے حملہ آور ہوتے ہیں اور دفاع کی صورت میں کبھی پچھلی صفوں میں نہیں جاتے۔سب سے پہلے میدان میں اُترتے ہیں اور قربانی کہ جزبے سے سرشار ہوتے ہیں۔
اگر ہم ساری اقوام عالم کے قائدین کی صلاحیتوں کا جائزہ لیں تو پسماندہ، غریب،مفلس،عزت نفس اور عصبیت سے محروم، مقروض، غلامانہ ذہنیت کی حامل عوام،کرپٹ، بد دیانت، بد اطوار، بد کردار،ذہنی، جسمانی، روحانی اور اخلاقی و سیاسی گراوٹ کے حامل افراد کو محض وقتی اور شخصی مفادات کی خاطر اپنا قائد اور لیڈ ر تسلیم کر لیتے ہیں۔ یہی لوگ جنہیں کرپٹ اور بدکردار سیاستدانوں اور اُن کی ہمنوا نوکر شاہی کی تائید و حمائت حاصل ہوتی ہے اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل ایک جماعت تشکیل دیتے ہیں جو تھانہ،کچہری اور پٹوار خانہ کنٹرول کرتے اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں عوام کا استحصال کرتے غنڈہ گردی اور کرپشن سے مال ودولت حاصل کرتے ہیں۔ان میں مقامی غنڈہ صفت عناصر سے لیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بشمول معزز اور معتبر پیشوں اور اداروں کے اعلیٰ عہدیدار بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں کچھ ایسے خاموش کردار موجود ہوتے ہیں جو ان لوگوں سے رابطہ کرنے کے بعد انہیں ایسی مراعات سے نوازنے اور پھر اُن کے پیشے، عہدے کی حفاظت اور کرپشن و رشوت کی کمائی بحفاظت دوسرے ملکوں میں منتقل کرنے کی گارنٹی فراہم کرتے ہیں۔اندرون ملک ان کے خاندانوں کو شاہانہ طرز زندگی اختیار کرنے کے لیے سارے لوازمات کی فراہمی کے علاوہ اُن کے اثاثوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں جس پر سو فیصد شیطانی روایات کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔ آئین اور قانون میں ایسی سہولیات کی حفاظت کے لیے ترامیم کر دی جاتی ہیں تاکہ ملکی قانون ایسے افراداور اُن کے خاندانوں کی حفاظت یقینی بنا سکے۔
ملک دشمن قوتیں ایسے سیاستدانوں، لیڈروں، اُن کے کارکنوں سے لیکر اُن کے ہم خیال اور ہمر از عہدایدان اور اُن کے سہولت کاران کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ملکی اور غیر ملکی سفارتکاران کے رابطہ کارہوتے ہیں۔ عالمی، علاقائی اور ملکی میڈیا اُن کے حق میں قومی اور عالمی رائے اور راہیں ہموار کرتا ہے۔عالمی اور ملکی مافیا اُن کے اشاروں کا منظر رہتا ہے چونکہ یہی مافیا ایسے ملکوں کے معاملات چلاتا ہے۔ ملک کا انتظام چلانے والے ادارے نمائشی اور مافیا کے حکمبردار ہوتے ہیں جن کے حکم سے انحراف کسی بھی سطح اور اعلیٰ و ادنیٰ عہدیدار کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ جرات ایمانی اور قوت ایمانی کی حقیقت اپنی جگہ مگر کروڑوں انسان نما حیوانوں کے جنگل میں ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ایسے ملکوں اور قوموں کے درمیان رہتے ہوئے جہاد کی آخر قسم یعنی دل میں برائی پر لعنت بھیجنے پرہی اکتفا کیا جائے تو بہتر ہے۔
وہ ملک اور قومیں جہاں قانونی کی حکمرانی عدل و اعتدال ہے وہاں کرپشن، سیاسی، غنڈہ گردی، مجرمانہ نفسیات کے حامل نودولیتے سیاسی قائدین اور بیور و کرٹیک بدمعاشی کی کوئی گنجائش نہیں۔ وہاں توہین عدالت کا بھی کوئی قانون نہیں اور نہ ہی از خود کارروائی کی کوئی گنجائش ہے۔اُن ملکوں میں قوانین کی بھر مار بھی نہیں اور نہ ہی آئین یا دستور گنجلک اور پیچیدہ ہیں۔ وہاں تھانے اور پٹوار خانے بھی نیلام نہیں ہوتے اور نہ ملک قیوم اور رانا شمیم جیسے جج اعلیٰ عدلیہ کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان سب خصوصیات، اعلیٰ معاشرتی روایات و اقدار کی بنیاد جمہوریت اور نظام عدل ہے جس کے گرد سارا ریاستی نظام گھومتا ہے۔ وہاں مافیا کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے آئین اور قوانین نہیں بدلتے اور نہ ہی عوامی مفادات پر سودے بازی قبول کی جاتی ہے۔ان سب اچھائیوں کا کریڈٹ جمہور کو ہی جاتا ہے نہ کہ لیڈروں، سرکاری ملازموں، عدلیہ اور میڈیا کو۔کہتے ہیں کہ مچھلی سب سے پہلے سر سے گندی ہوتی ہے اور دودھ میں اگر زہر ملا ہو تو وہ نتھر کر ملائی میں جمع ہو جاتا ہے۔ ہماری عدلیہ، انتظامیہ، سیاسی اشرافیہ اور ہرسطح کی اعلیٰ ترین بیورو کریسی کو کریم آف دی نیشن کہاجاتا ہے۔ خود فیصلہ کیجئے کہ جس قوم کے سر میں خناس، خصلیات میں فتور، نفسیات مجرمانہ ہو اور کریم میں زہر شامل ہو اُسکا زندہ رہنا ہی معجزہ ہے۔
ہمارے ملکی نظام میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ ہی عوام میں قیادت کے چناؤ کا شعور ہے۔جیسی قیادت اور قائدین پر یہ قوم بھروسہ کرتی ہے وہ اپنی جبلت کے مطابق ہی اُن سے برتاؤ کرتے ہیں۔ شاہد کسی شاعر نے ہمارے قومی اور اجتماعی شعور کی درست تعریف کرتے ہوئے کہا تھا۔
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے