Tarjuman-e-Mashriq

تلخ یادوں کے سائے میں

ہماری پچھہتر سالہ تاریخ میں خوشی و شادمانی کے کم اور رنج والم کے مواقع زیاد ہ ہیں ۔ 14اگست1947کے دن آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی خون آشام آندھیوں نے چلنا شروع کیا جو آج تک مسلسل چل رہی ہیں ۔تکمیل پاکستان کا سفرآگ و خون کے دریا نہیں بلکہ سمندر عبور کرنے کے بعد ابھی مکمل ہوا ہی تھا کہ بھارت نے برطانوی سامراج کی مدد سے جونا گڑھ ، حیدر آباد اور کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ ایک طرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن ، جنرل آکن لیک ، نہرو اور اُن کے غلام مسلمان تھے اور دوسری جانب قائداعظم ؒ کو اپنے رفقا کی بھی حمائت حاصل نہ تھی۔ خان لیاقت علی خان اور اُ ن کے ساتھیوں نے کشمیر کے مسئلے پر قائد سے نہ کوئی مشورہ کیا اور نہ ہی انہیں باخبر رکھا۔ مہاجر ین کی آباد کاری میں بھی سندھی ڈیروں اور پنجابی جاگیرداروں نے روڑے اٹکائے اور ملک کے اندر کئی پیچیدہ مسائل پیدا کر دئیے۔ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے افغان حکومت نے باجوڑ پر حملہ کر دیا ور مرزا خان عرف فقیر آف ایپی کو پختو نستان تحریک تیز کرنے کی شہہ دی ۔ جی ایم سید نے قائداعظم کی زندگی میں ہی سندھو دیش کی تحریک شروع کی اور بلوچستان میں پے درپے بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ باچا خان اور عبدالصمد اچکزئی کی پاکستان مخالف تحریکوں سے ساری دنیا واقف ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ اُن کی پشت پر ہمیشہ سے ہی بھارت ، افغانستان اور برطانیہ کھڑے رہے ہیں ۔ ہماری خارجہ پالیسی میں سر ظفراللہ نے جو پیچیدگیاں پیدا کیں وہ آج بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔ جن غلطیوں کا تدارک ذوالفقار علی بھٹو جیسا زیرک سیاستدان نہ کر سکا آج بلاول بھٹو زرداری انہیں مزید خرابی کی طرف لے جارہا ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان اور1971کی جنگ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ او رالمیہ ہے جس کی تلخ یادیں کبھی کم نہ ہونگی ۔ آج ہم ان ہی تلخ یادوں کے سائے میں جی تو رہے ہیں مگر ان کا تدارک کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں رکھتے ۔سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے درمیان مفادات ، مراعات اور طاقت کی جنگ نے ہمیں سیاسی لحاظ سے مفلوج اور معاشی اعتبار سے مفلوک الحال کر دیا ہے۔ ہمارے سیاسی رہنما ایک دوسرے پر پھبتیاں کسنے کے شغل میں مشغول ہیں اور اغیار ہمیں ہر پہلو سے نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سوچ و فکر کا کوئی مستند ادارہ ہی نہیں جو ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر مستقبل کے لیے ایک ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ پیش کر سکے۔ ہمارے دانشوروں کے پاس اغیار کے ہاتھ مضبوط کرنے اور مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کو حق حکمرانی دلانے کے ہزاروں منصوبے ہیں جن پر ہر دو یا تین سال بعد عمل ہوتا ہے۔
ہمیں آج تک پتہ نہیں کہ 1970میں بھارت ، عوامی لیگ اور دہشت گرد تنظیم مکنی باہنی کے درمیان جو معاہدہ ہوا اسے ہماری اینٹلیجنس ایجنسیوں نے اجاگر کیوں نہ کیا۔ پاک فوج کے اندر بنگالی جوانوں او رافسروں نے اس سازش کو کیسے اپنایا اور اُن کی برین واشنگ کیسے ہوتی رہی۔ روس، برطانیہ اورامریکہ کسطرح مجیب الرحمن اور بھارت کی مدد کرتے رہے اور اس گھناؤنی سازش کا حصہ رہے۔ بھٹو اور یحییٰ خان کے درمیان کیا چلتا رہا اور شاہ ایران ان دونوں کو جوڑنے کا سبب کیوں بنا۔ جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے اور بھٹو کو اقوام متحدہ میں پو لینڈ کی قرار داد پھاڑنے کا مشورہ کس نے دیا۔ وہ کون تھے جنہوں نے جنرل نیازی کو بحفاظت رکھا اور ایس ایس جی کے غیر تمند افسر کیپٹن سلیمان کو رو ک لیا کہ وہ جنرل نیازی کو گولی سے نہ اُڑا سکے۔ اگر ایسا ہوجاتا تو پھر ہتھیار ڈالنے کی تقریب نہ ہوتی اور نہ ہی پاک فوج ہتھیار ڈالتی۔ جذبہ جہاد اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار افسر اپنے جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے مکی باہنی اور بھارتیوں کے سینے چھلنی کرتے اور سارے مشرقی پاکستان سے غداروں کا صفایا کر دیتے ۔ زخمی شیروں کی طرح جو کرتے وہ جنگی تاریخ کا انمٹ باب ہو تا۔ ہر سال کی طرح آج پھر ہم تلخ یادوں کے سائے میں نہ صرف جی رہے ہیں بلکہ پچھلے آٹھ ماہ سے ایک انجانے خوف کی اذیت سے بھی گزار رہے ہیں ۔ آج پھر ہمارے قائدین نے ہمیں پلٹن میدان میں کھڑا کردیا ہے تاکہ ہم آئی ایم ایف اور دیگر قرض دینے والے اداروں کے سامنے اپنی عزت ، آزادی اور قومی غیرت کا ہتھیار پھینک کر روٹی کے چند ٹکڑوں کے عوض بک جائیں۔ دسمبر1971اور دسمبر2022تقریباً ایک جیسا منظر پیش کر رہے ہیں ۔ تب بھی قیادت کا بحران تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔ ایک طرف عوام ہیں اور دوسری جانب حکمران ہیں ۔ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ ریچھ والا ریچھ رجارہا ہے اور شہر والے روٹی کے ٹکڑوں کے محتاج ہیں۔ حکمرانوں کے محل قمقموں سے روشن ہیں اور ملک مایوسی کے اندھیروں میں ڈوباہوا ہے۔ عدلیہ خاموش ہے اورمیڈیا غینم کا ہتھیار ہے۔ علما وفقہا بھگاڑ کے راستے پر گامزن ہیں اور قوم کا شیرازہ تقریباً بکھر چکا ہے۔

 

Exit mobile version