قرآن کریم میں حضرت آدم ؑ اور اماں حواہ کی زندگی کا جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان کی زندگی جنت میں آرا م و آسائش کی ایسی کیفیت میں گزری جس میں نہ توکوئی خوف و غم تھا نہ ذہن و جسم پر کوئی جمود، جہاں جی چاہا چلے گئے ،جوجی چاہا پالیا ۔ زندگی کی اس کیفیت کو ہم اپنے الفاظ میں “خوشی و مسرت” کہہ سکتے ہیں۔ اسی کیفیت کو ابدی طور پر حاصل کرنے کے بہلاوے نے ان کے اندر تجسس کی ایسی آگ بھڑکائی کہ وہ شجرِ ممنوعہ دیکھنےکی تمنا پیدا ہو ئی جس کے قریب جانے سے رب تعالٰی نے منع فرما دیا تھا ۔ پھر کیا ہوا ؟ ابھی شجر ِمنوعہ کا نظارہ کیا ہی تھاکہ زندگی نےعجیب پلٹا کھایا ، وہ خلد بدر کر دئیے گئے ان کا آرام و آسائش مفقود اور خوشی و مسرت کی جگہ ایک دوسری کیفیت نے لے لی جسے “خوف وغم” کہا جا سکتا ہے۔ اس عالم ناسوت میں اولاد آدم ؑکو ملنے والے ورثہ میں جنت والی خوشی بھی ہے اور عالم ناسوت کا خوف و غم بھی ۔
آئیے ہم ان دونوں کیفیات میں سے کسی ایک کا مطالعہ کریں اور معلوم کریں کہ انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات منتج ہوتے ہیں ۔ دوسری کیفیت کے نتائج متضاد ہونے کی بنا پر خود بخود معلوم ہو جائیں گے ۔ چلیے خوشی کو چھیڑتے ہیں۔
اہل فلسفہ نے خوشی کی تعریف کرنے میں صدیاں لگا دیں اور اس نتیجے پرپہنچے کہ "کسی شئے یا کسی مقصد کے حصول کے بعد ذہن ِانسانی میں جو طمانیت اور عجیب و غریب گد گدی سی پیدا ہوتی ہے وہ خوشی کہلاتی ہے ۔کوئی گفتگو یا نظارہ بھی ایسی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔
انسانی تجربہ ہے کہ خوشی اپنے اظہار کے لیے کچھ جسمانی حرکات بھی کرواتی ہے ۔ جنہیں ہم تبسم ہنسی و قہقہہ وغیرہ کا نام دیتے ہیں ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ خوشی ایک ماں ہے اور جب وہ حرکت کرتی ہے تو مذکورہ بالا نامی اولاد پیدا کرتی ہے یہ سسٹم ایسا لازم و ملزوم ہے کہ ایک کی موجودگی دوسری کی موجودگی پر دلالت کرتی ہے ۔ اصولی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان جب خوش ہوتاہے تو ہنستا یا قہقہے لگاتا ہے یا اگر وہ ہنستا اور قہقہے لگتا ہے تو اس وقت وہ لازماً خوش ہوتا ہے اور چونکہ خوشی ضد ہے غم کی اس لئے یہ محاورہ بجا لگتا ہے کہ "ہنسی علاج غم ہے” مگر ۔ ۔ ۔ لگتا یہ ہے کہ یہ محاورہ بجا ہونے کے باوجود کچھ پرانا ہو گیا ہے ۔ اس لئے کہ اس سائنسی دور میں ہنسی پر تحقیق نے کچھ اور ہی آشکار کیا ہے۔
مشہور روحانی سکالر خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے فرمایا کہ ان کے مرشد حضور قلندر بابا اؤلیاء ؒ فرمایا کرتے تھے کہ ” خوش رہا کریں اور ہنسا کریں ۔ اگر ہنسی نہ آئے تو بھی گدگدی کر کے ہنس لیا کریں ۔
ایک فرانسیسی اخبار نے سروے کیا کہ 1930ء میں اوسطاً روزانہ خوشی 19 منٹ تھی جبکہ 1980ء میں یہ صرف 6 منٹ رہ گئی ۔ ان پچاس سالوں میں انسان نے کتنی ترقی کی یہ تو آپ کےسامنے ہے اور اس ترقی نے انسان کی کتنی خوشیاں چھینی اس کا بھی تخمینہ لگا لیجئے –
علامہ اقبال ؒنے کیا خوب فرمایا تھا۔
؎ ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
ایک اور سروے کے مطابق بچے دن میں 200مرتبہ ہنستے ہیں لیکن جوانی تک پہنچتے پہنچتے یہ تعدادصرف15 مرتبہ روزانہ رہ جاتی ہے ۔ 285 مرتبہ کی ہنسی کون کھا گیا ؟ قابل غور بات ہے ۔
انسان جوں جوں زندگی کے دوسرے سرے کی طرف سرکتا جاتا ہے مغموم ہوتا جاتا ہے۔ معلوم نہیں غمِ حیات میں یا غم وفات میں کیونکہ وہ ان دونوں سروں کے درمیان ہی تو سرکتا ہے . شاید زندگی کے اسی رگڑے میں شاعر کے منہ سے یہ شعر نکل گیا ۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
ایک سروے کے مطابق 80 فیصد لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ زیادہ ہنسیں اور خوش رہیں بقيہ 20فیصد وقتی طور پر زندگی کے طوفانوں سے اس قدر نبرد آزما ہو رہے ہوتے ہیں کہ انہیں ہنسنے کا وقت ہی نہیں ملتا ۔ لیکن چونکہ خوشی کی یاد انسان کے لاشعور میں پیوست ہے اس لئے جب کبھی زندگی کی طنابیں ڈھیلی ہوتی ہوں تو وہ ہنسنے سے باز نہیں آتا۔
میرا خیال ہے آپ یہ جاننے کے لئے بے قرار ہوں گے کہ "ہنسی علاج ِ غم ہے” تو ہے ہی مگر یہ محاورہ اب پرانا کیوں ہو گیا ہے ؟
ایک امریکن مصنف جن کا نام Norman Cousins تھا ۔ ریڑھ کی ہڈی کی ایک ایسی تکلیف میں مبتلا ہو گئے جس سے ان کی حرکت بھی مفقود ہو گئی ۔ درد و تکلیف سے ان کا برا حال ہوا جا رہا تھا ۔وقت گزاری اور توجہ اِدھر اُدھر کرنے کے لئے انہوں نے مزاحیہ فلمیں اور مزاحیہ لٹریچر پڑھنا شروع کر دیا ۔ ظاہر ہے کہ طنز و مزاح کی دعوت پر تو ہنسی اور قہقے بھاگم بھاگ آتے ہیں ۔ انہیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ دس منٹ کھل کرقہقے لگانے سے دو گھنٹے تک ان کا درد و تکلیف جاتی رہی ۔ ان کے خون اور دیگر معائنوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ ان کی حالت دن بدن بہتر ہو تی جارہی تھی ۔ مگر ڈاکٹروں نے ہنسی و قہقوں کو اس بہتری کی وجہ قرار دینے سے صاف انکار کر دیا اور یہ توجہیہ پیش کی کہ بیماریاں بعض دفعہ خود بخود ٹھیک ہو جایا کرتی ہیں ۔ قدرت نے ضدی ڈاکٹرزکو منوانے کےلئے طرح طرح کے اسباب پیدا کئے اور اب تحقیقات سے پوری طرح ثابت ہو چکا ہے کہ ہنسنے سے انسان کی قوت مدافعت (Immune System )متحرک اور طاقت ور ہو جاتا ہے ۔ اب ایک نئی سائنسنے جنم لے لیا ہے جسے Psycho Neuro Immunology کہتے ہیں جس نے پوری طرح ثابت کر دیا ہے کہ لوگ اپنی مخصوص ذہنی کیفیت کی بنا پر یاتو زیادہ بیمار رہنے لگتے ہیں یا بیماری سے محفوظ رہ کر صحت یاب زندگی گذار سکتے ہیں ۔
Fry William سالفورڈ یونیورسٹی میڈیکل اسکول میں ایک سائیکاٹرسٹ ہیں انہوں نے لوگوں کو لاؤرل اور ہارڈی کی فلمیں دکھا دکھا کر ان کا بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن اور اعصاب کا مشینوں سے معائنہ کیا ۔ معلوم ہوا کہ ہنسنے اور قہقہوں سے دل کی حرکت تیز ہو گئی،عمل تنفس تیز ہو گیا ۔ خون سے آکسیجن جسم میں زیاده مقدار میں جذب ہوئی ۔ چہرے اور معدے کے اعصاب و عضلات میں بہت زیادہ تحریک ہوئی –Fry کا کہنا ہے کہ ” ہنسنا دراصل( بیٹھے بیٹھے ہی ) دوڑنے کا دوسرا نام ہے ، کیونکہ جسم پر اس کے وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ورزش کرنے اور دوڑنے سے ہوتے ہیں – William Fry نے ثابت کیا کہ ہنسنے سےجسم میں Endorphins نامی کیمیائی مرکبات میں اضافہ ہو جاتا ہے جن کا کام دردوں کو کم کرنا اور جسم کو پرسکون کرنا ہوتا ہے۔
ٹیکساس ٹیکنیکل یونیورسٹی میں کچھ تجربات کئے گئے جن میں انہوں نے طلبہ کو چار گروپوں میں تقسیم کیا ۔پہلے گروپ کو 20 منٹ مزاحیہ کیسٹ سنائی گی ۔ دوسرے گروپ کو سکون لانے میں مددگار کیسٹ ، تیسرے گروپ کو معلوماتی کیسٹ سنائی گئی جبکہ چوتھے گروپ کو کچھ بھی سنایا گیا۔
محققین نے طلبہ پر بلڈ پریشر ناپنے والے کف چڑھا کر اس میں ہوا بھر کر سب کے بازوؤں میں درد والی کیفیت پیدا کی ۔ معلوم ہوا کہ جس گروپ نے مزاحیہ کیسٹ سنی تھی اس میں قوت برداشت سب سے زیادہ تھی یعنی ہنسی علاج درد ہو گئی ۔ لیجئے درد کا تیر بہدف نسخہ آپ کے ہاتھ لگ گیا ۔ اپنے درد سر پر ابھی ہنس ڈالئے ، درد بھاگ جائے گا ۔ دنيا میں سب سے زیادہ درد لوگوں کے سروں میں ہوتا ہے۔ کبھی کوئی درد سر بن جاتا ہے اور کبھی آدمی خود اپنے لئے دردِ سر بن جاتا ہے اگر ان حالات میں اصلی ہنسی نہیں آتی تو نقلی سے ہی کام چلالیجئے۔یقین کریں کام چل جائے گا ۔ ہنسی کی لہریں درد کو بھگا دیں گی۔
کیلی فورنیا کے سائنس دانوں نے ایکٹروں سے کہا کہ وہ اپنے چہرے پر ہنسی یا مسکراہٹ تو لائیں اگرچہ وہ اندر سے ہنسنا نہ بھی چاہ رہے ہوں ۔ مشینوں نے ثابت کیا کہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ آتے ہی ان کا بلڈ پریشر کم ہو گیا ۔ دل کی دھڑکن نارمل ہو گئی اور جسم بہت پرسکون ہوا۔
اگر مسکراہٹ یا ہنسی اتنی ہی سنگدل نکلے کہ کسی طرح بھی آنے کا نام نہ لے تو گُد گدی والا نسخہ تو آپ کے ہاتھ میں ہے ہی ۔ پھر دیکھئیے ہنسی اپنے پورے خاندان کے ساتھ آپ کے پاس آئے گی ۔
مشی گن کا ایک نفسیات دان کہتا ہے کہ ہنسی آپ کے چہرے پر آتے ہی چہرے کے عضلات میں حرکت شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے چہرے اور دماغ کے دوران خون میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے۔ دماغ کا درجہ حرارت (پاره) کم ہو جاتا ہے اور دماغ سے نکلنے والے کیمیکلز میں کمی بیشی ہوتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ زندہ دل لوگوں کے چہرے تروتازہ ہوتے ہیں ۔جسم توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں ۔ وہ بہترین دماغوں کے مالک بھی ہوتے ہیں۔
لی برک نامی ایک اور ڈاکٹر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہنسی جسم میں ایسے قابل پیمائش اثرات پیدا کرتی ہے کہ یقیناً کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ ہنسنے والے لوگ زیادہ صحت مند ہوتے ہیں ۔ انہوں نے یوں تجربہ کیا کہ 10 میڈیکل اسٹوڈنٹس کو لےکر انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا ۔ پانچ کو ایک گھنٹہ تک ایک مزاحیہ فلم دکھائی اور پانچ کو کنٹرول گروپ میں رکھا۔ ہر دس منٹ بعد دونوں گروپوں کا خون لے کر تھکاوٹ Stress سے پیدا ہونے والے ہارموز کا معائنہ کیا ۔ پتہ چلا کہ مزاحیہ فلم دیکھنے والے گروپ میں تھکاوٹ سے پیدا ہونے والے ہارمونز کم پیدا ہوئے جس کی وجہ سے جسم کی قوتِ مدافعت Immune System میں تحریک پیدا ہو گئی ، خون کے سفیدخلئے جو جراثیم کی پہچان کر کے انہیں ہلاک کرتے ہیں بہت زیادہ متحرک ہو جاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ پُر مزاح لوگوں کا مدافعاتی نظام بہت طاقتور ہوتا ہے۔
ایک کینیڈین ڈاکٹر نے بھی مزاحیہ طبیعت کی بنا پر لوگوں کی درجہ بندی کی اور معلوم کیا کہ جن لوگوں کی باتیں بہت پُر مزاح ہوتی ہیں ان کے جسم میں Anti Bodies جراثیم کش ذرات کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ اب یہاں ہنسی علاج جراثیم ہو گی ۔ آپ یقین کریں اگر سب خوش رہنے کی اہمیت جان جائیں تو اینٹی بائیوٹک اور درد کش ادویات بنانے والی کمپنیوں کا دیوالیہ ہو جائےگا۔
جارج آدم ایک امریکن ڈاکٹر ہیں وہ ہنسی سے امیون سسٹم کی تقویت کی تمام شہادتیں جمع کر رہے ہیں ۔ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ اسپتالوں اور کلینکوں کا ماحول ایسا مشینی ہوتا ہے کہ ہر کوئی ناک بھوویں چڑھائے پھرتا ہے۔ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کو نہیں ملتی یہ سب تو بیماری کی علامتیں ہیں ۔ بھلا بیماریوں کا علاج بیماری سے کیسے کیا جا سکتا ہے ۔ اسی لئے وہ اپنے کلینک میں مسخروں والا حلُیہ بنا کر بیٹھتے ہیں ، خو د خوش رہتے ہیں – خوب ہنستے ہیں اور مریضوں کوبھی خو ب ہنساتے ہیں ۔ اس طرح وہ ڈپریشن کے شدید ترین مریضوں کا علاج بھی انتہائی کامیابی سے کر رہے ہیں۔
رابرٹ ہولڈن برطانیہ میں پہلے معا لج بذریعہ ہنسی ہیں جو 1991ء سے برمنگھم ہیلتھ اتھارٹی میں کام کر رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم لاشعوری طور پر جانتے ہیں کہ جب ہم ہنستے ہیں تو اپنے آپ کوہلکا پھلکا صحت و توانائی سے بھرپور محسوس کرتے ہیں ۔ وہ ڈپریشن وغیرہ کے مریضوں کا علاج بذریعہ ہنسی کرتے ہیں ۔ وہ لوگوں کو ہنسی کے موڈ میں لانے کے لئے انہیں جانوروں کی بولیاں بولنے کو کہتے ہیں جونہی انسانوں کی آوازیں جانوروں کی آوازوں میں بدلتی ہیں لوگوں کی ہنسی کے تسمے کھل جاتے ہیں اورپھر وہ لوگوں کو آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر نے کی ترغیب دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر بلا روک ٹوک مسرت کے ایسےچشمے پھوٹیں جو انہیں دن بھر خوش رکھیں۔
تجربات سے معلوم ہو چکا ہے کہ ہنسی یا قہقہہ سرسے لے کر پاؤں تک جسم کے اندر ایسی وائبریشن پیدا ہوتی ہے کہ جسم میں رواں دواں تمام سُست توانائیوں کی اصلی حالت بحال ہو جاتی ہے۔
یاد رکھئے
یہی وائبریشن اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی متاثر کرتی ہے اس لئے یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ” ہنسی علاج مرض ہے"
خوش رئیے خوشیاں بانٹئے ۔ یہ اپنی اور انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہو گی ۔
(اصل مضمون مطبوعہ روحانی ڈائجسٹ کراچی پاکستان-شمارہ جنوری 1994)