Tarjuman-e-Mashriq

میں سنا رہا تھا دل کی بڑے شوق سے کہانی

رزق آپ کو کہا سے کہا لے جاتا ہے اور کب کہیں کسی سے ملاقات ہو جائے ایک  ایسی پر اسرار      کیفیت ہے  جس کا لطف  اسے نہ کھوجنے میں ہے  اور یہ بہت سالوں سے میری  سوچ اور منصوبہ بندی  کی حدود سے بہت باہر کا معاملہ بھی  ہے – میں  آج بہت دنوں بعد   لندن  گیا ،   کبھی لندن ہی میرا گھر ہوتا تھا . اس شہر  سے میری اچھی بلکہ   بہت  ہی اچھی یادیں    وابستہ  ہیں.  جو یادیں اچھی نہیں میں ان پر کسی کو دوشی نہیں   ٹھہراتا بلکہ وہ تمام  یادیں میری ذات کی تعمیر  کی وجوہات ہیں .  ہر شخص  کہیں نہ کہیں ، کبھی نہ کبھی اور  کسی  نہ کسی تجربے سے گزرا  ہوا ہوتا ہے ، بس سب اپنے اپنے وقت پر آتے ہیں اور کچھ یادوں ، محبتوں اور تجربات کو سمیٹتے ہیں اور آگے چل پڑتے ہیں – یہ زمینی ہجرت بھی ہو سکتی ہے اور  ایک ہی شہر یا ملک میں رہ کر اپنے ماضی سے دوری. کبھی ایسا بھی ہوتا  ہے کہ آپ کو یہ ہجرت نہیں کرنی پڑتی   کیونکہ آپ  ہجوم میں  اکیلے ہو   جاتے ہیں ، وہ  آنکھیں جو آپ پر جمی ہوئی ہوتی ہیں بازار میں کسی اور کو تلاشنے لگ جاتی ہیں     . کنور محمد اخلاق شہریار   جنہوں نے   امراؤ جان فلم کے  گیت لکھے   کا ایک شعر   اس کیفیت کو چند لفظوں میں بہت  کمال انداز میں  بیان کرتا ہے

امید سے کم چشم خریدار میں آئے

ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

اب میں لندن صرف کام سے جاتا ہوں  ، ریل سے سفر کرتا ہوں  ،  شہر کی مصروف شاہراہوں سے گزر بہت کم ہوتا ہے اور وہ تمام مقامات جہاں کبھی   طویل محافل ہوا کرتی تھیں ان  گلیوں سے گزر ہی نہیں ہوتا . نہ وہ   تصویر کی دنیا اور نہ آواز  کی جادونگری ، بس ایک  مترجم کی حیثیت سے میں اس شہر میں جاتا ہوں اور الفاظ کی دنیا میں کھویا کھویا واپس آجاتا ہوں ، کل بھی کچھ ایسا ہی دن تھا ، میں لندن میں ایک عدالت میں بیٹھا تھا  تو مجھے  ایک آواز نے مخاطب کیا

"السلام و علیکم میرا نام  سہیل انوار ہے  اور آپ کا نام ؟”

” وعلیکم السلام ،  مجھے انوار ایوب  راجہ کہتے ہیں ”

"آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ”

"جی برمنگھم سے ”

بس ان کچھ جملوں کے تبادلے کے بعد سہیل انوار صاحب  یہاں سے عمارت کے کسی اور حصے میں چلے گئے – لندن کے  کناری وارف  میں ان  سے   یہ ایک اتفاقیہ ملاقات تھی ، کناری وارف  ایسٹ لندن میں  برطانیہ اور دنیا کے اہم مالیاتی مراکز میں سے ایک ہے۔ کچھ دیر بعد جب میں عمارت سے باہر نکلنے لگا تو  دروازے کے پاس سہیل  صاحب  سے پھر ملاقات ہوئی ،انہوں  نے  بتایا کہ وہ  لندن میں "پنر "کے علاقے میں   رہتے ہیں ، میں نے ان سے بس یوں ہی  تذکرہ  کر دیا کہ یہاں باسط کانپوری صاحب رہا  کرتے تھے . سہیل صاحب نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا "آپ انہیں کیسے جانتے ہیں ” میں نے اس سرد دوپہر یہاں سڑک پر کھڑے ہونے کے  بجائے  انہیں  ساتھ ہی ایک کیفے میں آنے کے لیے کہا تا کہ ہم ایک ایک کپ کافی (کوفی) پی سکیں اور  کچھ  باسط علی کانپوری صاحب کے بارے میں  بات کر سکیں . مجھے تب تک یہ پتہ نہیں تھا کہ سہیل انوار صاحب ایک ریٹائرڈ بینکر ہیں اور باسط صاحب اور ان  کے خاندان کے بہت قریبی مراسم  ہیں .  جب  میں لندن میں کام کرتا تھا تو کناری وارف  اور لندن کے اس حصے میں میرا بہت آنا ہوتا  تھا .

یہ یونیورسٹی کے دنوں کی بات ہے ، میں  لوٹن  یونیورسٹی کے میڈیا اسکول میں   پڑھتا تھا ، ایک روز لوٹن کے پاس ہی ایک قصبے میں ایک  ادبی محفل تھی ، جیسے   جبران نے کہا تھا

"In my youth, the heart of dawn was in my heart, and the songs of April were in my ears”.

بس ایسا  ہی کچھ حال  اپنا  تھا .  غریب الوطنی  کے شروعاتی دنوں کی بات  ہے  ،     ایک   طرف مسائل کا  پہاڑ  تھا اور دوسری طرف تلاش  کے سفر کا آغاز . میں اکثر  کسی نہ کسی ایسی تقریب  کی  تلاش میں  رہتا  جہاں  کچھ سیکھنے کو  ملتا.

اس ادبی محفل  میں ایک مشاعرہ بھی ہو رہا تھا ، جس  میں لندن کے مشہور شعرا اپنا کلام سنا رہے تھے اور یہیں   میں پہلی بار جناب رضا علی عابدی صاحب اور جناب باسط علی کانپوری صاحب سے ملا.

 کیفے میں  بیٹھتے ہی  سہیل صاحب نے فون اٹھایا  اور باسط صاحب کے دولت کدے کا  نمبر ڈائل کیا،  بیگم صاحبہ نے فون اٹھایا اور  اور  سہیل صاحب نے  انہیں بتایا کہ برمنگھم سے ایک صاحب لندن آئے ہیں اور  باسط  بھائی کے بارے میں پوچھ رہیں ، انہیں فون دیں .   تب  تک مجھے علم ہو چا تھا  کہ  باسط علی کانپوری صاحب پچھلے پانچ چھ سال سے صاحب فراش ہیں اور فالج کی وجہ سے  اب بہت کم بات کرتے ہیں . ان تک فون پہنچایا گیا اور میری ان سے بات ہوئی ، جیسے ہی میں نے  سلام کیا تو کہنے لگے ” ارے کہاں ہیں آپ اتنے سالوں سے "- یہ وہی مُشْفِقانَہ اَنْداز  تکلم تھا ،  یہ وہی دلکش  و دلفریب آواز تھی کہ جس میں وہ  کبھی لندن کے مشاعروں    میں   مترنم غزل سرا ہوتے   تو کہتے

کہیں وہ آ کے مٹا دیں نہ انتظار کا لُطف

عجیب شے ہے جسے انتظار کہتے ہیں

ان کے نداز تکلم پر سجاد عباسی  نے لکھا   تھا ” کیف و کم کی ایسی فضا پیداہو جاتی ہے کہ کچھ دیر کے لئے غمِ زمانہ بھی پس منظر میں چلا جاتا ہے اور ہر دِل سےآواز آتی کہ وہ پڑھیں اور سُنا کرے کوئی”

مجھے باسط علی صاحب کے الفاظ سنکر  بائیس سال پہلے کی  وہ  ملاقات یاد آ گئی جس میں آپ نے مجھے  ہاتھ ملاتے ہوئے کہا تھا ” آپ اچھا لکھتے ہیں ، لکھنا  چھوڑیے گا مت ” پھر ان کا ایک خط یاد آیا جس میں انہوں نے مجھے "جادو اثر لڑکا ” کہہ کر مخاطب کیا –

یہ ان سب حسیں یادوں  کی ایک  عجیب سے  کیفیت تھی  جب میں  ان سے سالوں بعد بات کر رہا تھا ،  ان کی بیماری کا سن کا دکھ ہوا مگر ان کی آواز سن  کر  اچھا لگا  اور حیرانگی بھی ہوئی کہ اتنے سالوں بعد بھی  انہیں  میرا نام  یاد تھا  بلکہ انہوں نے تو یہاں تک پوچھا کہ برمنگھم میں   زندگی  کیسی گزر رہی ہے   کیونکہ ان  کی بیماری سے پہلے وہ اکثر مجھے فون کرتے،ہماری طویل گفتگو  ہوتی    اور تب تک میں برمنگھم منتقل ہو چکا تھا .   اس فون کال کے بعد   سہیل انوار صاحب نے تجویز دی کہ اب آئے ہو تو باسط بھائی کو ملتے جاؤ ،  اس قدر خلوص کے ساتھ سہیل صاحب نے دعوت  دی کہ میں انکار نہ کر پایا  .

 جیسے کچھ روز پہلے میں نے لکھا تھا کہ آپ   کا رزق آپ کو   آپ کی سوچ اور منصوبہ بندی  کی حدود سے بھی  باہر لے جاتا ہے ویسے  ہی آج کا دن تھا –  میں لندن ریل سے آتا ہوں ، مجھے ریل کا سفر اچھا   لگتا ہے ، آج کل لوکوموٹو نہیں چلتی ہیں ریل اب بجلی پر چلتی ہے اور اس کی رفتار اسقدر ہوتی ہے  اور  ایک سینما اسکرین کی طرح کھڑکی سے باہر   حرکت  کرتے  مناظر مجھے بہت اچھے لگتے ہیں  مگر آج  خراب موسم کی وجہ سے ریل چلنے کی امکانات کم تھے ، لندن  اور خاص کر  کناری وارف جیسے مصروف کاروباری مرکز میں کوئی گاڑی نہیں لاتا ، مگر  میں  گاڑی   لایا  ، مجھے آج برمنگھم میں ہی مقامی عدالت میں جانا تھا مگر شام میں ایک کال آئی اور پتہ چلا کہ برمنگھم  میں میری  خدمات کی ضرورت نہیں ، مجھے لندن جانے  کے لیے پوچھا گیا اور میں نے ہاں کر دی. یہ سب میری سوچ اور   منصوبہ بندی کی حدود سے باہر کا معاملہ ہے جسے میں  سمجھنا نہیں چاہتا ، میں ہر روز ہی کسی نئے حسن اتفاق کا منتظر رہتا  ہوں اور بس آج بھی کچھ ایسا ہی  تھا .  ریل  بند ، گاڑی پہ یہاں آنا اور  سہیل انوار صاحب سے ملنا ، ایک  حسن اتفاق ، سوچ اور   منصوبہ بندی کی حدود سے باہر کا معاملہ.

پنرکی ایک خاموش سی گلی میں ایک  خوبصورت سے کاٹیج  کے دوازے پر دستک دی تو بیگم باسط نے دروازہ کھولا ،اندر داخل ہوتے ہی  باسط صاحب نے  پہچان  لیا – سہیل انوار صاحب   بھی ساتھ تھے . باسط علی صاحب اب مکمل طور پر اس کمرے میں محدود تھے اور فالج کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال یہیں ہو رہی تھی جس کے لیے  ان کی دیکھ بھال کرنے والے ایک صاحب بھی  یہاں  تشریف لائے . باسط علی صاحب گو کہ  اب  اس گھر تک ہی محدود ہیں مگر ابھی بھی  ان کی ذات میں  ایک ادبی شعلہ جل رہا تھا ، ان کے بستر پر بہت سی  کتابیں اور میز پر بہت سے کاغذات  بکھرے پڑے تھے  اور  انہوں نے بہت شفقت سے ایک کتاب اٹھائی اور مجھے دی. بیگم صاحبہ نے  بہت خلوص سے چائے کا اہتمام کیا  ، ہم نے  کچھ  دیر یہاں گزاری ، میں نے باسط صاحب سے دعاؤں کی نیاز سمیٹی، سہیل صاحب کے ان کے دوازے پر اتارا  اور گاڑی کا رخ ایم ون موٹر وے  کی طرف کر لیا ،  اب  سفر  میں ایک احساس   بھی میرے ساتھ تھا

اَب مسافر کو ملے یا نہ ملے منزلِ شوق

اِک دیا ہم نے بہرحال جلا رکھا ہے

لوٹ آئیں گے یہ اُمید ہے باسطؔ اُن سے

دِل کا دروازہ ابھی ہم نے کھلا رکھا ہے

 

اس امید  کہ ساتھ کے الله رب العزت باسط کانپوری صاحب کی اچھی صحت دیں  آج  کا سفر تمام ہوا .واپسی کے سفر میں دن کے واقعات پر جب سوچنے لگا تو   باسط علی کانپوری  صاحب  کا  ہی ایک شعر یاد آیا

میں سنا رہا تھا دل کی بڑے شوق سے کہانی

ابھی محو داستان  تھا   کہ  گزر گئی کہانی

 

Exit mobile version