Tarjuman-e-Mashriq

میں نے ہنستے رقص کرتے کافر جن دیکھے ہیں

ایک لڑکی جس کی عمر بارہ تیرہ سال تھی اور ہماری دور پار کی رشتہ دار تھی عامل کے سامنے لائی گئی تو عامل نے کہا کہ نہیں آٹھ سال سے بڑا انسان گناہ گار ہوتا ہے اسے جن دکھائی نہیں دے سکتے کوئی آٹھ نو سال سے کم عمر بچہ لایا جائے۔ امی نے مجھے آگے کر دیا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ گاوں میں گھر کے صحن میں سو رہے تھے کہ کوئی پتھر آ کر چارپائیوں کے پاس گرا۔ امی اور خالہ وغیرہ اٹھ گئے ۔ اب اس پردو نتیجے نکالے جا سکتے تھے۔ ایک یہ کہ کسی بچے یا کسی بڑے سے غلطی ہوئی ہو گی اور دوسرا یہ کہ اس واقعہ کے لیے مافوق الفطرت قوتوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جائے۔
پہلا نتیجہ تو بور سا ہے لیکن دوسرا نتیجہ ایک اچھی کہانی کو جنم دے سکتا تھا اور دیہی پرانی زندگی میں انت کی یکسانیت ہوا کرتی تھی تو ایسے میں اس طرح کے واقعات کا عمومی طور پر دوسرا نتیجہ ہی نکالا جاتا تھا اس سے اور کچھ نہیں تو وقتی تھرتھلی ضرورپیدا ہو جایا کرتی تھی۔
دوتین دن کے اندر بات ہمارے محلے سے گائوں کے آخری محلے تک پہنچ چکی تھی۔ ہمارے گھر کے صحن کے پار گرے کچے مکان کا ملبہ تھا اور پہلے سے ایک قوی تاثر موجود تھا کہ یہ جگہ ’بھاری‘ ہے۔ گو کہ ایک سادہ سا واقعہ تھا کہ ایک پتھر آ کر گرا اور گاوں کی شدید خاموشی کی فضا میں اس کی آواز نے توجہ اپنی جانب مبذول کر لی لیکن چند دنوں بعد کہانی نویس خواتین نے کہانی کو جزئیات سے مزین کر دیا۔ تمام جزئیات تو یاد نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ کہانی میں بم کا لفظ باربار آتا تھا یعنی کہ جب پتھر گرا تو ایسے لگا جیسے بم گرا ہو ۔ اتنے چھوٹے سے پتھر کی اتنی آواز کیسے ہو سکتی تھی؟ گاوں میں کہانی نویس خواتین علت و معلول کے چکروں میں نہیں پڑتی تھیں لیکن بم کی آواز کی علت کو جنات کی قوت سے تعبیر کیا گیا یا۔۔۔شاید جنات کی قوت ثابت کرنے کے لیے بم کی آواز ڈالی گئی تھی، مجھے کیا معلوم میں تو آٹھ سال کا تھا اورمیرا عقیدہ تھا کہ ضیاالحق ایک عادل اور نیک بادشاہ ہے۔
کہانی جب طول و عرض میں پھیل گئی تو ایسے میں پرانی گھاگ دانشور بزرگ خواتین نے مشورہ دیا کہ کسی پیر کے پاس جانا پڑے گا وگرنہ اس قدر ’بھاری’ جگہ کے پاس جہاں کافر جنات کا بسیرا ہے زندگی کیوں کر بسر ہو سکتی ہے؟ بچوں کی زندگی کا سوال ہے۔ اور ہاں جنات کے عقیدے کا تعین بھی کہانی نویس خواتین نے کہانی کی بنت کے دوران ابتدائی دو تین دنوں میں کر لیا تھا ۔ سب کا یقین تھا کہ ملبے پر بسیرا کرنے والے یہ جنات پکے کافر ہیں ۔ نڈر بزرگ خواتین تو ان جنات کو حرامی کہنے کی بھی جرات کر لیتی تھیں۔
جن پیر کا نام بزرگ خواتین نے فائنل کیا وہ ہمارے دور کے رشتہ دار ہی تھے۔ سیشن کی فیس دیسی مرغا تھا خیر مرغے تب سب دیسی ہی تھے۔ کیش کا ابھی زیادہ عمل دخل دیہی زندگی میں نہیں تھا اور بارٹر سسٹم کے جانے کی جھلکیاں راقم نے دیکھ رکھی ہیں۔ دیسی مرغے مرغیاں ہر گھر میں ہوتے تھے۔ ایک بڑا مرغا پکڑا گیا اور پیر کے پاس پہنچ گئے۔ پیر نے کہا کہ جنات کو دیکھنا ہے اس لیے کوئی بچہ بچی لاو تاکہ وہ شیشے میں اسے دیکھ سکے۔ امی دوڑی دوڑی ایک رشتہ دار بچی کو لائیں لیکن پیر نے کہا کہ بارہ تیرہ سال کے گناہ گار کو جنات نظر نہیں آتے۔ اس پر امی نے مجھے آگے کر دیا۔
پیر نے ایک کالا سے گول شیشہ نما میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ شیشہ تو نہیں کہنا چاہیے کالا رنگ تھا اور اس میں اپنا سایہ سا نظر آتا تھا۔ پیر نے کہا بچے غور کرو تمہیں تمہارا گھر نظر آئے گا۔ میں نے توجہ کی۔ پیر نے تحمکانہ انداز میں کہا ’بتاو گھر نظر آیا؟ میں نے کہا ’نہیں بس مجھے اپنی آنکھ بہت موٹی سی دکھائی دے رہی ہے‘ پیر تمسخرانہ سے انداز میں کچھ بڑبڑایا۔ مجھے پیر کی بڑ بڑاہٹ تو یاد نہیں البتہ ماں کا التجائی لہجہ یاد ہے کہ کیسے انہوں نے کہا تھا ’قاری غور سے دیکھو جیسے پیر صاحب کہہ رہے ہیں‘
اب مجھے سب کچھ نظر آنا شروع ہو گیا۔ میں کسی کا دل نہیں توڑ سکتا، میں ایک ایسا فرد ہوں جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ گوگل نقشہ بتانے والے لڑکی کی آواز مصنوعی ذہانت کی پیداوارہے اس کے واضح غلط راستے پر چلنے کو ترجیح دے دیتا ہوں کہ ’کیا سوچے گی‘ کہ میں اس کی بات نہیں مان رہا۔
میں نے اقرار کیا کہ ’ گھر نظر آ رہا ہے‘
پیر نے کہا ’ملبے والی جگہ نظر آ رہی ہے؟
میں نے کہا ’ہاں ۔۔۔‘
لاشعور میں امی کی آواز تھی ’قاری غور سے دیکھو‘ مجھے معلوم تھا یہ آواز کیا سننا چاہتی ہے بس میں ان کا دل رکھنے کے لیے وہی بولنا چاہتا تھا۔ جب میں نے یہ فیصلہ کر لیا تو پھر پیر کو مزید کچھ کہنے کی ضرورت پیش ہی نہ آئی۔ میں فر فربولتا چلا گیا۔۔
’’۔وہ آ گئے۔۔وہ پانچ ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پتھر ہے ۔ وہ انہوں نے پتھر مارا ۔۔وہ ہم جاگ گئے ہیں ۔ ہم پریشان ہیں ۔ پانچوں جن ہنس رہے ہیں ناچ رہے ہیں‘‘
امی بہت خوش ہوئیں ۔ مرغا پیر پیشگی وصول کر چکے تھے ۔ دونوں پارٹیاں جیتی ہوئی تھیں۔ ہم پیر کے گھر سے نکلے۔ میں اپنے مرغے کو اخری دفعہ پیر کے صحن میں لاپرواہ دانہ چگتے دیکھ کر دکھی وحیران ہوا۔
واپسی پر میں خوش تھا۔ امی کا دل رکھ لیا تھا۔ وہ خوش تھیں۔ اورسب سے بڑھ کریہ احساس تھا کہ شاید وہ واقعی وہ جن میں نے دیکھے تھے اورمیں گناہ گار نہیں ہوں ۔
رات آئی میں ملبے کو دیکھے چلا جا رہا تھا کہ کہیں کوئی پتھر نہ آ جائے۔
امی نے کہا ’حرامی کہیں کے‘
میں نے کیا کیا ہے؟ میں نے ڈرتے ہوئے پوچھا
’تمہیں نہیں کہا ان کافروں کو کہہ رہی ہوں‘
امی بھی ملبے کو دیکھ رہی تھیں ان کی آنکھوں میں خوف تھا۔
مجھے معلوم نہیں تھا کہ اگلے دن گاوں کی کہانی نویس خواتین کی کہانی میں مجھے مرکزی کردار ملنے والا تھا  ……
Exit mobile version