Tarjuman-e-Mashriq

جنگ عظیم اول اور جموں کشمیر کے نامعلوم فوجی (قسط اول)

جنگ عظیم اول اور اس میں کام آنے والے کشمیری فوجیوں کے حوالے سے بہت سے احباب نے درخواست کی تھی کہ اس موضوع پہ ایک تحقیقی مضمون تحریر کیا جائے، زیر نظر تحریر اس سلسلے کا دیباچہ سمجھ لیں، یہ موضوع تحقیق طلب ہے اس لئے بہت سا وقت مانگتا ہے کوشش ہوگی کہ اس پر کُچھ اقساط میں تفصیل سے لکھا جائے۔
پہلی قسط حاضر خدمت ہے۔پڑھیں اور اپنی فیڈ بیک سے ضرور نوازئیے۔ شکریہ
جنگ عظیم اول دراصل دنیا کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور اُن پہ قبضے کی ہی جنگ تھی۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی، جس سے اس وقت کے برصغیر کا کوئی مفاد وابستہ نہیں تھا،کیونکہ برصغیر اس وقت خود برطانیہ کا غلام تھا، تاہم چونکہ پہلی جنگ عظیم میں ایسے علاقوں کے لوگوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا، جو آج پاکستان و بھارت میں شامل یا اُن کے زیر کنٹرول ہیں، ان میں سابقہ ڈوگرہ راجواڑے جموں کشمیر کے تقسیم شدہ خطے بھی شامل ہیں۔
ڈوگرہ دیسی راجواڑہ بھی دیگر ہندوستانی ریاستوں کی طرح انگریزوں کی ایک کالونی تھی، فوجی بھرتی کا ایک مرکز تھا جہاں جموں کا ایک خاندان حکمران تھا اور اُسے یہ حکمرانی انگریز سرکار کی وفاداری بشرط استواری کے نام پہ دان کی گئی تھی، اُس وقت انگریز سامراج نے دُنیا کے مختلف خطوں میں اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لئے مختلف ماڈل اپنا رکھے تھے اور برصغیر میں اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لئے اُس نے متحدہ ہندوستان کو دو مختلف ماڈلز میں تقسیم کررکھا تھا انھی میں ایک ماڈل کو پرنسلی ہندوستان کہا جاتا ہے۔ جموں کشمیر کا خطہ بھی ایک پرنسلی راجواڑہ کے بطور شمار ہوتا تھا، مقامی حکومت کو قدرے اندرونی اٹانومی اور بقیہ تمام شعبے براہ راست تاج برطانیہ کے سپرد۔ یعنی ڈوگرہ راجواڑہ تمام اہم شعبوں میں تاج برطانیہ کے زیر انتظام تھا۔ حتیٰ کہ اُس کی فوج و پولیس کے سربراہان بھی اکثر انگریز ہی تھے۔
جنگ عظیم اول میں اس وقت کے متحدہ ہندوستان سے 10لاکھ سے زائد افراد یورپ، افریقہ اور عرب کے مختلف خطوں میں ایک ایسی جنگ لڑنے پر مجبور ہوئے، جس لڑائی سے اُن کا یا ان کے مُلک کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا، بلکہ جس سلطنت عثمانیہ کو بچانے کے لئے برصغیر میں تحریک خلافت چل رہی تھی، ہندوستانی سپاہی بشمول ہندو، مسلم اور سکھ برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کی قیادت میں اسی سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ بھی لڑ رہے تھے۔ اس جنگ میں اس وقت کے متحدہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے 74187 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک محتاط اندازے کے ایک لاکھ سے زائد فوجیوں کا تعلق جموں کشمیر کے مختلف علاقوں سے تھا۔
آپ حیران ہوں گے کہ یہ ایک لاکھ کے قریب و زائد لوگ کیسے پہلی جنگ عظیم اول کا ایندھن بن گئے؟ یہی وہ سوال ہے جس پر آنے والی اقساط میں گفتگو مقصود ہے
ذیل میں ہم صرف اس کی چند معروضی وجوہات کا تذکرہ کئے دیتے ہیں تاکہ نکتہ وروں کے قلوب و اذہان اس طرف متوجہ ہوجائیں۔
یہ بات حقائق کی روشنی اور دستیاب تاریخی ریکارڈ کو مدنظر رکھ کہ مکمل طور پہ درست ہے کہ ہم جنگ عظیم اول جیسی جنگ پر کوئی فخر نہیں کرسکتے، یہ لڑائی برطانوی سامراج اپنے نو آبادیاتی عزائم کے لئے لڑ رہا تھا اور اس میں اپنے مفتوحہ علاقے (برصغیر) سمیت اس کی چھتر چھایا میں قائم دیسی راجواڑوں کی رعایا کو فوجی ایندھن کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ بلکہ جموں کشمیر کے عوامکے جنگ عظیم اول میں کردار، قربانیوں کو مدنظر رکھ کر یہ بات مزید واضع ہوجاتی ہے کہ انگریز بہادر نے اس خطے پہ مسلط اپنے گماشتہ ڈوگرہ راج کے یہاں کے عوام کو ایک ایسی جنگ میں جھونکا جن کا ان لوگوں کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا، دستیاب ریکارڈ کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ جموں کشمیر کے اُن ایک لاکھ لوگوں جو جنگ عظیم اول میں کام آئے تھے کے قتل کی ایف آئی آر بھی ڈوگرہ ساہوکارہ راج پہ کٹنی بنتی ہے۔…………..جاری ہے………
Exit mobile version