گزشتہ سے پیوستہ
میں بہت سے واقعات کی تفصیل اس لئے نہیں لکھ رہا کیوں کہ جنگ آذادی کشمیر میں ذیلدار راجہ ولایت خان نے جو کردار رضاکارانہ طور پر ادا کیا اور جس جذبے اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجاہدین کی خدمت کی اسے لیفٹینٹ راجہ مظفر خان شہید ستارہ جرأت (دو بار)کے علاوہ جہاد آذادی میں حصہ لینے والے مجاہدین،آذاد کشمیر انتظامیہ اور بعد میں فوجی جوانوں،عہدیداروں اور افسروں نے اپنے تعریفی خطوط اور اسناد کی صورت میں بیان کیاہے اور اسے انوار ایوب راجہ نے اپنی زیر طبع تصنیف”سفید پوش "میں بڑی محنت سے قلمبند کیا ہے۔ تکرار کی صورت میں انوار ایوب کی تحقیق و تحریر میں بیان کردہ طویل واقعات کا مختصربیان ممکن نہ رہے گا۔انوار ایوب نے بڑی محنت سے ذیلدار صاحب کے نام لکھےگئے فوجی اور سول افسروں کے خطوط کے علاوہ محاذ جنگ پر لڑ نے والے کمانڈروں کی جانب سے سامان کی وصولی کی رسیدیں اور اپنی ضروریات کے لئے سامان مہیا کر نے کی درخواستیں جمع کیں اور انہیں اپنی تحریر کا حصہ بنایا۔یہ خطوط، رسیدیں اور درخواستیں اگر چہ بو سیدہ ہو چکی ہیں مگر اب بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور ہمارے خاندان کا قیمتی اور تاریخی اثاثہ ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ آذاد کشمیر اور پاکستان کے کم ظرف نودولتیے خاندان سیاست سے منسلک ہیں اور ریاست کا قانون اور آئین ان مجرموں کو نہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ حق حکمرانی بھی دیتا ہے۔ پاکستان واحد ملک اور آذاد کشمیر اس کی ایک طفلی ریاست ہے جہاں کوئی کرپٹ سیاستدان دس قتل کر کے یا ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے درجنوں جانیں لے لے اور تھانیدار اور پٹواری کی جھوٹی تصدیق پر مجرم ثابت نہیں ہوتا اور اسے الیکشن لڑنے اور حکومت کرنے کا بھی ریاستی آئین اور قانون اختیار دیتا ہے۔کہتے ہیں کہ کُتا کنویں میں گر جائے تو ستر ڈول نکالنے کے بعد پانی پاک تصور ہوتا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ ہمارے ہر ملکی اور قومی ادارے میں ستر سے زیادہ مردہ ضمیراور کُتوں سے بدتر لوگ موجود ہیں مگر اللہ کے نام پرحاصل کردہ اسلامی ریا ست سے یہ غلاطت صاف کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہی مردہ ضمیر، انسان دشمن، قومی مجرم ریاست کا نظام چلا رہے ہیں۔
سفید پوش ذیلدار راجہ سخی ولایت خان کے نام لکھی گئی تحریروں میں درج ہے کہ یہ شخص حب الوطنی کی عمدہ مثال تھا۔جس طرح راجہ صاحب نے مجاہدین کی خوراک،انہیں محاذ جنگ پر بجھوانے، زخمیوں اور شہیدوں کے انخلأ سے لے کر راستوں اور سڑکوں کی تعمیر کا کام کیاہے اسلامی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے محب وطن اور قوم کی عزت و آذادی کے لئے قربانیاں دینے والوں کا خیال رکھے۔ یہ تحریریں میرے اور میرے خاندان کے افراد کا ہی نہیں بلکہ قومی اثاثہ بھی ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے جہاد کے نام پر مال بنایا اور پھر سیاست میں آ کر قومی غیرت و حمیت کا سودا کیا ان کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ وہ واقع ہی وہاں موجود تھے جہاں کسی شہید کا لہو گرا۔
1947میں ہمارا گھر جس کے بیشتر حصے تب تک قائم تھے مجاہدین کے لئے مختص کیا گیا۔ نئے آنے والے مجاہدین کو پہلے یہاں ٹھہرایا جاتا اور محاذ جنگ پر لڑنے والے کمانڈروں کی تصدیق کے بعد انہیں مختلف پوسٹوں اور سیکٹروں میں بھجوایا جاتا۔ جتنی دیر وہ اس گھر میں قیام کرتے ان کی خوراک اور حفاظت کا بندونست راجہ صاحب ہی کرتے تھے۔ابتدأ میں کچھ قبائلی اورافغان جھتے لوٹ مار کرنے آئے جن کی وجہ سے بد امنی کی فضاء پیدا ہو گئی۔ مقامی مسلم آبادی کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہوئیں تو انہیں محاذ جنگ پر جانے سے روک دیا گیا۔اوڑی کے محاذ پر لڑنے والے قبائل بھی لوٹ مار کا مشن لے کر آتے تھے جن کی وجہ سے مجاہدین کے حوصلے پست ہوئے اور فتح شکست اور ندامت میں بدل گئی۔جنرل اکبر نے اپنی کتاب "ریڈرز ان کشمیر”اور انوار ایوب راجہ نے اپنی تحریر”لینٹھا”جو مجاہدآذادی ایم اے حق مرزا کی ڈائری پر مبنی ہے میں ایسے دل خراش واقعات کا ذکر کیا ہے۔ مرحوم جی ایم میر کشمیر یا ت کے معلم اور بڑے دانشور تھے۔آپ نے بھی اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ قبائل ہمیں آذادی نہیں بلکہ غلامی کی زنجیر پہنانے آتے تھے۔وہ بھارت نواز تھے اور نہرو کا کام آسان کرنے کے بعدکشمیریوں کے بچے تک اٹھا کر واپس چلے گے۔
سردارشوکت حیات اور دیگر مصنفین نے بھی اس المیے کا ذکر کیا ہے مگر سردار محمد ابراہیم خان اور سردار عبدالقیوم نے بوجہ اس پر خاموشی اختیار کی۔ ہمارے خاندان کے دیگر مکانات گاؤں سبز کوٹ کی خواتین اور بچوں کے لئے خالی کر دیے گئے ۔چونکہ یہ گاؤں عین محاذجنگ پر تھااور مجاہدین کے استعمال میں تھا۔ گاؤں دبلیاہ راجگان جو تین محلوں پر مشتمل ہے کے اکثر مکانات خالی کئے گے جہاں وادی بنا ہ اور ملحقہ علاقوں سے آنے والے مہاجرین کو ٹھہرایا گیا۔ سفید پوش صاحب نے علاقوں میں امن کمیٹیاں قائم کیں جہاں ہندؤں کے خالی کردہ مکانو ں میں ضلعی انتظامیہ کی مدد سے مہاجرین کو آباد کیا۔ ہمارا خاندان دو سال تک جسروٹہ ضلع جہلم میں رہا اور دو سال بعد آذاد کشمیر ریگولر فورس اور پاکستان آرمی نے سیز فائر لائین کا کنٹرول سنبھالا تو یہ لوگ واپس اپنے گھر کو لوٹے۔ میری دادی جان اور نانی جان ان سب واقعات کی چشم دید گواہ تھیں۔ میرے والد صاحب کی پھپھی حضرت مائی عنایت بیگم ؒ نے اپنی تحریر”گلدستہ عنایت”میں ان واقعات اور محاذ جنگ پرلڑنے والے مجاہدین کے کارناموں کوشاعرانہ انداز میں بیان کیا۔ آپ نے ان ماؤں،بیویوں اور بیٹیوں کا غم جس انداز میں پیش کیا اس کا تصور ہی محال ہے۔آج میں آذاد کشمیر کے شرابی، زانی اور کرپٹ مجرمانہ کلچر اور پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ڈیلروں کو لیڈروں کی شکل میں دیکھتا ہوں تو مجھے وہ لوگ یاد آ جاتے ہیں جن کی دلہنوں کے ہاتھوں پر لگی مہندی ابھی پھیکی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے شوہروں نے وطن کی حرمت پر اپنا جوان لہو نچھاور کر دیا۔ ان شہیدوں کی قربانیوں کے صلے میں ہمیں ایک مسلسل غلامی اور غنڈہ صفت قاتلوں اور مجرموں کی حکمرانی ملی ہے۔ کیا یہی صلہ شہید ہے؟؟؟اس کا جواب ہماری نوجوان نسل کو سوچنا ہے کہ سندھ میں راجہ داہر، پنجاب، کشمیر، گلگت، بلتستان سے لے کر سارے خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی سرحدوں تک رنجیت سنگھ کی حکمرانی اور موجودہ دور کے سیاسی مجرموں او ر عوام دشمنوں میں کیا فرق ہے۔ کاش ہمیں کوئی کھڑک سنگھ جیسا جج اور کرنل مہان سنگھ جیسا منتظم ہی میسر آ جاتا۔ جرنل ڈائر کے قتل عام اور ماڈل ٹاؤن لاہور، بلدیہ فیکٹری کراچی اور حال ہی میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران جس طرح نہتے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس میں کوئی فرق نہیں۔ایک طرف ہماری عدلیہ کہتی ہے کہ پُرامن احتجاج عوام کا آئینی حق ہے مگر بظاہر یہ حق بلاول،مریم، مولانا فضل الرحمان اور دیگر اتحادیوں تک محدود ہے۔صدر ریگن کے دور میں اسرائل کا وزیراعظم بیگن تھا۔ بیگن امریکی صدر ریگن پر ہمیشہ ہاوی رہتا تھا۔ کسی امریکی صحافی نے ٹائمز میگزین میں سوالیہ مضمون لکھا تھا آخر امریکہ کا صدر کو ن ہے،ریگن یا بیگن؟یہی سوال اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام پوچھ رہیں ہیں کہ پاکستان کا اصل وزیر اعظم کون ہے، میاں شہباز شریف،مریم نوازیا رانا ثناء اللہ؟رانا ثناء اللہ کی دھمکیوں سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹر اورسپوٹر پاکستانی ہی نہیں بلکہ کسی دشمن ملک کے با شندے ہیں جنہیں گھروں میں گھس کر مارنا، ان کی عورتوں کی تذلیل کرنا اور بچوں اور بوڑھووں پر آنسوں گیس کی بر سات کرنا وطن کی خدمت اور ملک کی حفاظت کے زمرے میں آتا ہے۔جب ریاست ہی عوام کی دشمن اور ریاستی مشینری جبر اور ظلم کا ہتھیار بن جائے تو عام انسان بے بسی کے سوا کیا کر سکتا ہے۔
جس وچ گچی رمز نہ ہوئے درد منداں دے حالوں
بہتر چپ محمد بخشا سخن اجہیے نالوں
سپریم کورٹ کے احکامات اپنی جگہ مگر زور آور وں کے لئے احکامات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جبری جمہوریت میں جیسے لوگ اقتدار پر قابض ہوتے ہیں ویسے ہی پاکستان اور آذاد کشمیرپر قابض ہیں۔ رنجیت سنگھ، ہری سنگھ، کھڑک سنگھ اور گلاب سنگھ کی کرسی پر کوئی ملک، چوہدری،خان، راجہ، رانا، میاں، خواجہ، ڈار، بٹ یابلوچ بیٹھ جائے تو اقتدار کا نشہ ویساہی رہتا ہے بدلتانہیں۔مولانا مودودیؒ اپنے خطبا ت میں لکھتے ہیں کہ نام بد لنے سے کردار نہیں بدلتے،کرداربدلنے سے قوموں کے مزاج میں تبدیلی آتی ہے۔ ہمارے جج، جرنیل،بیوروکریٹ اور عوام ایک ہی مٹی کے بنے ہیں اور ایک جیسے کردار وں کے حامل ہیں۔راجہ داہر، رنجیت سنگھ اور گلاب سنگھ بھی اسی مٹی کے بنے تھے۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ پتھروں کو پوجتے تھے اور ان کے درجنوں خدا تھے۔ آج ہم ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک ہی الہامی کتاب کومانتے توہیں مگر نہ خدا،نہ رسولﷺ کی تعلیمات اور نہ ہی کتاب میں دی گئی ھدایت پر عمل کرتے ہیں۔ہمارے حاکم اللہ کے احکامات کے باغی ہیں اور عام انسانوں کو اذیت دیکرخوش ہوتے ہیں۔
پہلے عرض کیا ہے کہ میرے بڑے بھائی راجہ ذوالقرنین امسال سات رمضان المبارک کی شب سفر آخرت پر روانہ ہوئے اور اپنے ہی گھر سے چند قدم کے فاصلے پر اپنے ہاتھوں لگائے درخت کے نیچے ابدی نیند سو گئے ۔ان کی رحلت کے بعد میں چار دن ان کے گھر مہمان رہا اور ان کے ہاتھوں سے سجائی ان کی کتابیں دیکھتا رہا۔ میں نے "حکایات سعدی”ؒ اور قدرت اللہ شہاب کی تحریر”یا خدا "دیکھی اور ساتھ لے آیا۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی تحریر میں جن کرداروں کا ذکر کیاآج ان کی اولادیں اور ان جیسے ہی کردارقائداعظم ؒ کے پاکستان پر قابض ہیں۔ بے شعور، غرضمند عوام اور عدلیہ نے انہیں حق حکمرانی دے رکھا ہے۔ بقول سیّد مودودیؒ کے جب خزانے کی چابیاں غلط ہاتھوں دے دی جائیں تو ملک کنگال اور عوام بد حال ہو جاتی ہے۔
شاید میاں محمد بخش ؒ نے ایسی قوم کے لئے کہا تھا :
بس میراکجھ وس نہیں چلدا کیہ تساڈا کھوہنا
لسے دا کی زو ر محمد نس جانڑاں یا رونا
چلوہم بائیس کروڑ (لسو) بے ہمت، بے آسرا، بے اہمیت، بد حال، بھوکے اور بیمار پاکستانیوں کے ساتھ ملکر روتے ہیں۔ بھاگ تو سکتے نہیں چونکہ یہ ہی مادی خداؤں اور ان کے معاون خداؤں کا حکم ہے۔ اپنے آباؤواجداد کو یاد کرتے ہیں اور ان کی یادیں سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ ان کی یادوں میں کھو کر ریاست اور حکومت کے جبر کو برداشت کرتے ہیں، یہی ہماری تقدیر میں لکھا ہے۔ میرے گاؤں کاپہلا شہید راجہ ولی دادخان تھا جس کاذکر آنے والی تحریر میں کریں گے اور پھر اُن دنوں کی بات ہو گی۔
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔