تحریر : یعقوب نظامی- بریڈ فورڈ
پروفیسرڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی جمعرات 25جنوری 2024 ء اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ یہ خبر علمی ادبی حلقوں میں بڑے دکھ کے ساتھ سنی گئی۔ ہاشمی صاحب باکمال استاد، ماہر اقبالیات، محقق، سفرنامہ نگار اوراسلامی سکالر تھے۔ انھوں نے پچاس کے لگ بھگ کتابیں اپنے ورثہ میں چھوڑی ہیں۔ موصوف انتہائی سادہ طبیعت، گفتگو میں دھیماپن، مخاطب کی بات کو تحمل کے ساتھ سنتے اور پھر بڑامدلل انداز میں جواب دیتے تھے۔ ان میں کمال درجہ کی انکساری تھی۔ سادہ لباس، سادہ غذا،سادہ رہن سہن،ان میں مصنوعی پن نہیں تھا۔ کتابیں دکھاوئے کی بجائے علم پھیلانے کی خاطر لکھتے اور جب کسی موضوع پر قلم اٹھاتے تو پھر اِدھر اُدھر کی بجائے اُسی موضوع پر ہی توجہ دیتے تھے۔ یہ کمال کے محقق تھے۔ ایک محقق میں بردباری،محنت، لگن، جستجو اور صبر و تحمل کا عنصرلازمی ہے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی میں یہ تمام اوصاف موجود تھیں۔
شلوار قمیص، واسکٹ، سر پر جناح ٹوپی، ناک پر عینک، ہاتھ میں بیگ اور جیب میں قلم …… یہی ان کی پہچان اور یہی ان کا سرمایا حیات تھا۔ ہاشمی صاحب کا مزاج نرم و نازک، دبلے پتلے لیکن فولادی ارادوں کے مالک تھے۔ ان سے مل کر پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے والا فلسفہ سچ ثابت ہوتا تھا۔ باریش اورانتہائی مخلص انسان تھے۔ ہر کسی سے کھل کر بات نہیں کرتے تھے لیکن اگر کسی کو اپنے دل کے قریب پاتے تو پھر اپنا دل کھول کر سامنے رکھ دیتے تھے۔
مصنوعی زندگی سے نفرت کرتے تھے۔ ان کا ظاہر و باطن ایک جیسا تھا۔جب کلیہ شرقیہ جامعہ پنجاب یعنی اورینٹل کالج لاہور میں شعبہ اردو کے سربراہ تھے تب بھی انھوں نے عجز و انکساری کا دامن نہیں چھوڑا۔ اپنے آپ کو ادارہ کا سربراہ کی بجائے ہمیشہ ایک طالب علم کی مانند رکھا۔ دوسروں کو اہمیت دیتے اور اُن کی رائے کو غور سے سنتے تھے۔ یہ انتہائی منظم تھے۔ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو مفیداندازسے استعمال کرتے تھے۔سفر میں ہوتے تو کتاب نکال کر پڑھنا شروع کردیتے۔ بس، ریل یا ہوائی سفرکے لیے انتظار گاہ میں ہوتے تو فضول بیٹھنے کی بجائے قلم نکال کر ڈائری نویسی یا پھراحباب کو خط لکھنا شروع کر دیتے تھے۔ ان کا ذہن ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلہ کو سلجانے میں مصروف رہتا تھا۔ جب کوئی کام کرنے کی ٹھان لیتے تو پھر لنگوٹ باندھ کر اُس میں جت جاتے اور جب تک کام مکمل نہیں ہوتا وہ چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ پیکر اخلاص تھے۔ہاشمی صاحب کی زندگی میں جمود نہیں تھا۔ یہ بہت متحرک تھے۔ کراچی سے پشاور اور آزاد کشمیر سے بلوچستان تک ادبی کانفرنسیس اور ادبی مجالس میں خوشی سے شرکت کرتے تھے۔بین الاقوامی کئی سفر کیے اور پھرسفری یادیں لکھیں بلکہ زندگی کے آخری دنوں میں بھی وہ برطانیہ کے سفر کی یادیں لکھ رہے تھے۔
فقیر منش طبیعت کے مالک تھے۔ مصنوعی زندگی سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ سادہ غذا اور ایک مقررہ مقدار سے زیادہ نہیں کھاتے تھے۔ کھانے میں اس قدر احتیاط برتتے تھے کہ اکثر کھانا گھر سے تیار کر کے ساتھ بیگ میں رکھ لیتے تھے۔ قناعت پسند تھے۔ یہ برطانیہ، سپین، پیرس،جاپان یا دنیا کے کسی بھی ملک میں گئے ان کا یہی لباس یہی کھانا اور یہی طرز زندگی رہی۔ صوم و صلوۃ کے پابند۔ اپنی اولاد کو بھی دین کا یہی راستہ دکھایا۔ لاہور میں زندگی کا زیادہ حصہ گزارہ لیکن لاہوریوں کے چٹ پٹے کھانوں والی عادت سے کوسوں دور تھے۔ وعدہ کی پاسداری کرتے۔ جب ضرورت پیش آتی تو بڑی دیانتداری کے ساتھ اپنی رائے دیتے تھے۔ زندگی بھر فروغ علم کے لئے کوشاں رہے۔
ہاشمی صاحب انتہائی منکسر مزاج اور صاحب بصرت استادتھے۔ شاگردوں کی خوبیوں اورخامیوں سے باخوبی واقف تھے۔یہ شاگرد کی کمزوریوں کامزاق اڑانے کی بجائے ان کی اصلاح اور رہنمائی کرتے تھے۔ یہ ان کے اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آج کئی سکالر ان کے شاگرد عزیز ہیں جوان کی روایات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بات دلیل کے ساتھ کرتے۔ یہ لطیفہ باز نہیں تھے۔ مجلس میں اگر کسی نے کوئی لطیفہ سنایا تو قہقہہ لگانے کی بجائے چہرہ پر ہلکا سا تبسم بکھیر دیتے تھے۔ سنجیدہ گفتگو، سنجیدہ موضوعات پر قلم اٹھاتے تھے۔ اقبال کے شیدائی تھے۔ اور یہ عشق زبانی کلامی نہیں تھا بلکہ علامہ صاحب کے افکار پر ان کی کئی کتابیں اور مقالات چھپ چکے ہیں۔میں گذشتہ چالیس سال سے برطانیہ میں آباد ہوں۔ میں مختلف اخبارات، رسائل میں ان کے مضامین اور کتابیں پڑھ چکا تھا لیکن کبھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوا تھا۔
یہ 9دسمبر 2013کی بات ہے۔ پروفیسرڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ تشریف لائے۔ اس شہر میں اُن کے میزبان نامور افسانہ نویس مقصود الہٰی شیخ تھے۔ شیخ صاحب ہاں میں بھی مدعو تھا۔وہاں ہی میری ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی۔ بات چیت کے دوران ہاشمی صاحب نے میری کتاب ”پاکستان سے انگلستان تک“ جو برطانیہ میں آباد ایشیائی تارکین وطن کے حوالے سے لکھی گئی تھی میں دلچسپی لیتے ہوئے اس کتاب کی خواہش ظاہر کی۔ تب میں مانچسٹر لوکل اٹھارٹی کے لیے کام کرتا تھا۔ خوش قسمتی سے ہاشمی صاحب کا قیام بھی مانچسٹر میں اپنی بیٹی اور داماد خالد صاحب کے ہاں تھا۔ چنانچہ اگلے ہفتے میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ اُن کے گھر گیا جہاں ہماری ایک طویل نشست ہوئی۔ میں نے اپنی کتاب ”پاکستان سے انگلستان تک“کا ایک نسخہ پیش کیا۔ ہاشمی صاحب نے سرسری اس کا جائزہ لیا پھر اس کے فہرست مضامین پر نگاہ ڈالی اور فرمایا …… آپ نے بڑی محنت سے یہ کتاب لکھی ہے …… یہ میرے لئے سودمند رہے گئی۔پھر میں نے اپنا سفر نامہ ”اندلس منظر بہ منظر“ بھی پیش کیا۔
ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی ماہر اقبالیات ہیں۔جب میں نے اپنا سفر نامہ ”اندلس منظر بہ منظر“ پیش کیاتو ساتھ ڈاکٹر صاحب سے علامہ اقبال کی ایک نظم کے فٹ نوٹ میں درستگی کے متعلق بات کی تو ہاشمی صاحب فوری متوجہ ہوئے۔ اور بڑے غور سے میری بات کو سنا۔ میں نے انہیں بتایا کہ علامہ اقبال نے عبدالرحمان اول کی ایک نظم کو اردو کے قالب میں جب ڈھالا تو ساتھ ایک نوٹ لکھا۔ یہ نوٹ تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔ ہاشمی صاحب میری اس بات پر تھوڑا سنجیدہ ہوئے اور ایک جابر استاد یا علمی رعب داب ڈالنے والے مصنوعی ادیبوں کی طرح مجھ سے بحث میں الجھے نہیں …… بلکہ بڑی شفقت سے میری باتوں کوغور سے سنا اور میرے سفرنامے کے اس صفحہ کو نشان لگا یا جہاں میں نے لکھا ہے کہ……رصافہ کے باغ میں کھجور کے ایک تنہا پودے کو دیکھ کر عبدالرحمان نے یہ نظم لکھی ……”
تبدت لنا وسط الرصافہ نغلۃ
تنات بارض الغرب عن بلد النخل
(ترجمہ: رصافہ کے وسط میں کھجور کا ایک تنہا درخت نظر آیا جو نخلستان کی آب و ہوا سے جدا ہوکر مغرب کی زمین میں آگیا ہے۔)
جسے علامہ اقبال نے اردو کے قالب میں یوں ڈالا:
میری آنکھوں کا نور ہے تو
میرے دل کا سرور ہے تو
مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالا
صحرائے عرب کی حور ہے تو
بال جبریل میں اس نظم کے ساتھ ایک نوٹ لکھا ہوا ہے:
(یہ اشعار جو عبدالرحمان اول کی تصنیف سے ہیں، تاریخ المقری میں درج ہیں۔ مندرجہ ذیل نظم ان کا آزاد ترجمہ ہے۔ درخت مذکورہ مدینہ الزہرا میں بویا گیا تھا)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ مدینہ الزہرا عبدالرحمان اول کی وفات سے کوئی ڈیڑھ سو سال بعد تعمیر ہوا۔ یہ شعر مدینہ الزہرا میں کھجور کا درخت دیکھ کر نہیں بلکہ رصافہ کے باغات میں دیکھ کر لکھے گئے تھے۔ جس کا ذکر عبدالرحمان کے پہلے مصرع میں موجود ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ماہر اقبالیات ریکارڈ کی درستگی کی خاطر کلام اقبال کے اس نوٹ میں بھی درستگی کردیں تاکہ میرے جیسے طالب علموں کو درست معلومات ملتی رہیں۔“
ڈاکٹر صاحب نے میرے سفرنامہ کا مطالعہ اور مزید تحقیق کے بعد اپنے تاثرات قلم بندکرتے ہوئے لکھا……”یعقوب نظامی صاحب نے بہت صحیح نشان دہی کی ہے کہ مدینۃ الزہرا عبدالرحمن اوّل کی وفات سے کوئی ڈیڑھ سوسال بعد تعمیر ہوا، لہٰذاعبدالرحمن اوّل نے یہ اشعار رصافہ کے باغات میں کھجور کادرخت دیکھ کرکہے ہوں گے“…… اس طرح ڈاکٹر صاحب نے میری بات کی تائید کرکے ماہرین اقبالیات سے درستگی کی استدعا کی۔ یہ پڑھ کر ہاشمی صاحب کا علمی و ادبی اور تحقیقی مقام میری نظر میں اور اونچا ہوا۔ یہ اہل علم کی نشانی ہے کہ وہ حقائق کو تسلیم کرتے ہیں۔پہلی ملاقات کے بعد میرے ہاشمی صاحب کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ہماری کئی یادگار ملاقاتیں ہوئیں۔
جب میں اپنا سفرنامہ ”مغرب کی وادیوں میں“ لکھ رہا تھاتو ایک مقام پر مجھے مدد کی ضرورت پیش آئی۔ ہوا یہ کہ مراکش کے سفر کے دوران میں نے نامور عربی کے شاعر اور اُندلس کے سابق حکمران معتمد کے مزارپر حاضری دی تھی۔ مزار کی لوح پر معتمد کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔ یہ اشعار عربی میں تھے مجھے اُن کا اردو میں ترجمہ چاہئے تھا۔ میں نے برطانیہ میں مقیم سرزمین عرب کے عربی دانوں سے بات کی لیکن کوئی بھی میری مدد نہ کرسکا چونکہ یہ ہزار سال پہلے کی قدیم عرب میں لکھے ہوئے اشعارتھے۔ آخر میں نے رفیع الدین ہاشمی صاحب سے بات کی تو انھوں نے فرمایا ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے بات کریں اور ساتھ ڈاکٹر صاحب کا فون نمبر بھیج دیا۔ میں نے ڈاکٹر رضوی صاحب سے بات کی۔ انھیں عربی کے اشعار بھیجے توانھوں نے کمال مہربانی سے اُن کا اردو میں ترجمہ کرکے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ چونکہ جن اشعار کو عرب نہ سمجھ سکے وہ ڈاکٹر خورشیدرضوی صاحب نے سمجھے اور اُن کا ترجمہ بھی کردیا۔ یہ ترجمہ جب میں نے اپنے عرب ساتھیوں کو دکھایا تو سب اس قدر حیران ہوئے کہ ایک عجمی عربی زبان پر اسقدر دسترس رکھتا ہے۔اس سے قبل میں ڈاکٹر رضوی صاحب کی کتاب ”عربی ادب قبل از اسلام“ پڑھ چکا تھا۔ یہ ایک شاہکار تصنیف ہے۔
دسمبر 2016ء میں ہاشمی صاحب پھر برطانیہ تشریف لائے۔ اس بار بریڈفورڈ میرے گھر تشریف لائے اور فرمائش کی کہ میں انگریزی ادب کی نامور”برانٹی سسٹر“ کے گھر اور گاؤں دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ بہنیں میرے گھر سے پانچ چھ میل دور ہاورتھ نامی گاؤں کی رہنے والی تھیں۔ میں نے ہاشمی صاحب کو اس گاؤں کی سیر کروائی تو بہت خوش ہوئے۔یاد رہے برانٹی سسٹر کے ناول ”جین ایئر“ اور ”ویدرنگ ہائیٹ“ کاانگریزی ادب میں بہت اونچا مقام ہے۔ ان بہنوں کے گھر، سکول جہاں وہ پڑھتی رہیں، وہ چرچ جہاں ان کا باپ پادری تھا سب کچھ محفوظ ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ہاشمی صاحب انگریزوں کی علم دوستی کے بڑے قائل ہوئے۔ پھر 27دسمبر2016ء کو میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو لے کر برمنگھم گیا جہاں برطانیہ کے نامور صحافی ساجد یوسف سے ملاقات کی اورہم سٹریٹفورڈ نامی گاؤں گئے۔ یہ گاؤں شیکسپئر کی جنم نگری ہے۔ ہم شیکسپئر کے گھر میوزیم کو دیکھنے کے بعد اس گاؤں میں گھومے پھر ے ……پھر وہاں سے ہم شہرہ آفاق یونیورسٹی آکسفورڈ چلے گئے۔ جہاں یونیورسٹی اور دیگر کالجز کی سیر کی۔ آکسفورڈ علم و دانش کا گہوارہ ہے لیکن ہمارے ساتھ بھی ڈاکٹر ہاشمی صاحب تھے۔ ہم سیر کرتے اور ساتھ ساتھ ہاشمی صاحب کی دانشمندانہ اور مدبرانہ باتیں سنتے سیر کرتے رہے۔ ہاشمی صاحب علم کے سمندر تھے۔ہر موضوع پر ہماری بات ہوتی رہی بس یہی سمجھئے کہ جتنے دن ہم ساتھ رہے علم کے سمندر سے استفادہ کرتے رہے۔اسلام پر تو یہ ایک اتھارٹی تھے۔ یہ تنگ دل ملا نہیں تھے۔ اردو ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ اقبال شناسی کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب کے ساتھ بھی ان کی بڑی دلچسپی تھی ورنہ یہ کبھی بھی برانٹی سسٹر، شیکسپئر اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا رخ نہ کرتے۔ہاشمی صاحب کے ساتھ یہ ہمارا انتہائی یادگاری سفر تھا۔
میں پاکستان گیا تو ہاشمی صاحب کے دولت کدہ پر حاضری دی۔ میں نے دیکھا ہاشمی صاحب کا اوڑھنا بچھونا کتابیں ہی تھیں۔ ہر طرف کتابیں اور پھر ان کی ذاتی کتابوں کے مسودے نظر آئے۔ماحول انتہائی ادبی، اسلامی اور سادہ تھا ……ہاشمی صاحب نے ہماری تواضع کی اور ساتھ بہت سی کتابوں کے تحفے بھی دیئے جن میں ان کے سفرنامے اُندلس…… ”پوشیدہ تری خاک میں“…… اور سفرنامہ جاپان…… ”سورج کو ذرا دیکھ“ دیئے۔ کچھ عرصہ بعد میں بیگم اور بیٹی کے ساتھ جاپان کی سیاحت پر گیا تو ہاشمی صاحب کا سفرنامہ میرے لیے بے حد مفید ثابت ہوا۔اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہاشمی صاحب نے واقعی جاپان کا سفر کیا اور پھر یہ سفرنامہ لکھا ورنہ اکثر میرے مشاہدہ میں آیاہے کہ اردو کے بڑے بڑے سفرنامہ نگار بھی بغیر سفر کیے سفرنامے لکھتے اور شہرت پاتے ہیں۔
میں 2019ء کو پاکستان گیا۔ میری کتاب ”روشن صدی کی بات“ کی رسم اجرا میرپور آزاد کشمیر میں تھی۔ تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر رفیع الدین ہاشمی جبکہ صدرات سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر چوہدری محمد ابراہیم ضیا تھے۔ ہاشمی صاحب لاہور سے طویل سفر طے کرکے میرپور تشریف لائے۔ طویل سفر اورپیرانہ سالی کے باوجود ہشاش بشاش تھے۔ اس تقریب میں مظفرآباد ڈگری کالج کے پرنسپل ڈاکٹر عبدالکریم، نامور ادیب ریٹائرڈ پرنسپل پروفیسر غازی علم الدین، پروفیسر خواجہ خورشید، پروفیسر محمد الیاس ایوب اور علمی و ادبی احباب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور پھر کھانے کی میز پر شراکا محفل کے ساتھ ہاشمی صاحب کی مدلل یادگاری گفتگو ہوئی۔
8جنوری2024ء کو مجھ سے فون پر بات ہوئی تو کہنے لگے آپ کے لیے دو کتابیں ……اقبالیات ادبیات تاثرات…… اور……مکاتیب رفیع الدین ہاشمی بنام مشاہیر مرتب ڈاکٹر زیب النساء…… بھیج رہا ہوں۔ ملنے پر فون کرنا تاکہ ان کتابوں کے حوالے سے مزید بات چیت ہوسکے۔ یہ کتابیں مجھے اُسی دن ملیں جس دن ہاشمی صاحب اس جہاں سے اپنا تعلق ختم کرکے اللہ کے حضور حاضر ہوئے۔