میرا وطن ریاست جموں وکشمیر دنیا کے حسین ترین خطوں میں اللہ کی قدرت کا سب سے حسین انتخاب ہے۔یہ سبزہ زاروں، برف پوش پہاڑوں، شاداب وادیوں، گہری جھیلوں، آتشیں رنگ زاعفرانی کھیتوں، چناروں اور گرتی آبشاروں کی سرزمین ہے۔ اس وطن کی انہی دلفربیوں کو دیکھ کر شاعر بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ
پھر چراغ ولا لہ سے روشن ہوئے کوہ ودمن
مجھ کو پھر نغموں پر اُکسانے لگا مرغ چمن’
ظالموں نے میرے وطن کے پھولوں سے خوشبو اورپرکیف فضاؤ کی خوبصورتی چھین کر اس کی فضاؤں کو بے کیف بنا دیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب شہیدوں کا لہو رنگ لائے گااور میرا پیارا کشمیر ایک بار پھرآذادی کا سنہرا دن دیکھے گا۔1947 سے لے کر آج تک لاکھوں ماؤں نے خوبرو لخت جگر اس دن کے لئے کشمیر کی مٹی پر قربان کر دئیے ہیں۔’
انیسو سینتالیس میں تقسیم ہند کے وقت برصغیر میں 582 آذاد ریاستیں تھیں جن میں جموں وکشمیر سب سے بڑی ریاست تھی۔یہ ریاست کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے جس کے شمال میں چین اور مغرب میں وسط ایشیاء کے ممالک واقع ہیں۔وادی کشمیر جنت نظیر قدیم تہذیبوں کا مسکن اور علم و آدب کا گہوارہ رہا ہے۔بدھ مت کو اس خطے میں فروغ حاصل ہوا اور یہاں سے ہی تبت اور چین تک پہنچا۔مغل بادشاہ جہانگیر کشمیر کے بارے میں لکھتا ہے کہ کشمیر ایک صدا بہار باغ ہے اور اس میں 3 ہزار پھولوں کی اقسام اور جنگلات میں 77 نسلوں کی جڑی بوٹیاں موجود ہیں۔مغل بادشاہ جہانگیر اور شاہجاں نے چشمہ ویری ناگ کے ارد گر د اور جھیل صفہ پور کے کنارے جھیل ڈل کے قریب شالامار باغ، نور افشاں باغ اور صادق باغ لگوا کر وادی ء کشمیر کو گل و گلزار بنا دیا۔ رابرٹ تھرو پ وادی کشمیر کو دیکھنے کے لئے 1868 میں آیا تواس نے بلکتی اور سلگتی انسانیت کو قریب سے دیکھا۔اس نے اپنے خیالات اور تاثرات ”گورنمنٹ ان کشمیر“ کے نام سے قلمبند کر کے ہندوستان اور انگلستان کے اخباروں میں شائع کر وائے جس پر ڈوگرہ ایوانوں میں لرزہ تاری ہونے لگا۔ ڈوگرہ حکومت نے رابرٹ تھرو پ کو قتل کروا دیاجس کی لاش 22نومبر1968کو گلگت کے جنوبی علاقے سے ملی۔ بعد میں رابرٹ تھروپ کے کشمیر کے بارے میں مشاہدات اور تاثرات کو”گورنمنٹ ان کشمیر“ کے نام سے کتابی شکل دی گئی۔ جب 7مئی 2014کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی لوگ سبھا کے انتخابات ہونا قرار پائے تو حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق نے بھارتی عوام کے نام کھلا خط لکھا کہ ہم آزاد رہنا چاہتے ہیں اور ہمارے بچوں کی آزادی لوٹا دو۔
کاش کوئی آنے والی نسل یہ آواز سنے کہ کشمیر آزاد ہو گیا ہے مگر ہم لوگ تو شاید اس آواز کو ترستے ہوئے اس جہاں فانی سے چلے جائیں گئے۔ کیونکہ آزادکشمیر اور پاکستان کے آزاد خطے میں جب بھی مقبوضہ علاقے میں ظلم و جبر اور زیادتی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہمارے ایوانوں میں جو لوگ تشریف فرماہیں وہ دو چار دن گزرنے کے بعدوہ بمشکل ایک لفظ بول دیتے ہیں کہ ہم ظلم و جبر کی مذمت کرتے ہیں۔یہ لفظ بھی اس لئے بولا جاتا ہے چونکہ وہ وزارتوں اورسفارتوں کے مزے اسی لفظ کے صلح میں لیتے ہیں۔ہمارے سیاستدان آذادی کا چوغہ پہن کر ہر جائز و نا جائز طریقہ استعمال کرتے ہوئے آذاد کشمیر کی حکومت کاحصہ بن جاتے ہیں تاکہ تاریخ کے صفحات میں ان کا نام وزرائے اعظموں اور وزراء کے نام کی فہرست میں لکھا جائے۔ڈنگ ٹپاؤ سیاستدان آذادی کے نام پرمال کماتے ہیں تاکہ ان کی آنے والی سات نسلیں سکون سے بیٹھ کر کھائیں اور شاہانہ زندگیاں بسر کریں۔