Tarjuman-e-Mashriq

زینت کی کہانی – 1

تحریر: محمد ایوب  


یہ دو سری زینت ہے پہلی زینت پشاور کے کسی مہاجر کیمپ میں رہتی تھی ۔ بیس سال پہلے کی بات ہے وہ اپنی دو بہنوں نرگس اور حوّا بی بی کے ہمراہ میرے دفتر آئی ۔ اجازت لیکر دفتر میں داخل ہوئی اوراجازت لیکر کر سی پر بیٹھی اور تیسری بار پھر اجازت لی ’’صاحب میں بات کرسکتی ہوں ‘‘ کہا بات کریں ۔ دفتری اصول کے مطابق جو بھی بات کرنے یا درخواست دینے آتا تھا اسے ویٹر پہلے پانی اور پھر قہوہ پیش کرتا تھا ۔ پشاور کے لوگ چائے صرف ایک بار پیتے ہیں ۔ صبح کے ناشتے میں نان اور چائے یہ عام لوگوں کا کا ناشتہ ہے ۔ وہ صبح سویرے جاگتے ہیں ،نماز فجر ادا کرتے ہیں اور مسجد سے واپس گھر کو جاتے ہوئے نان خرید لیتے ہیں ۔ ایک یا دونان سارے گھر والوں کا ناشتہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ رات کی بچی ہوئی روٹی اور چائے سے ناشتہ کرتے ہیں ۔ یہ عام لوگوں کا ناشتہ ہے جن کی تعداد نوے فیصد ہے ۔ دس فیصد خوا ص صبح جاگتے ہی نہیں ان کی صبح دس بجے کے بعد ہوتی ہے ۔ وہ ناشتہ نہیں بلکہ برنچ کرتے ہیں ۔ البتہ سرکاری ملازمین کا معاملہ الگ ہے ۔ سرکاری ملازمین سے میری مراد مسلح افواج کے افسر و جوان ،دیہاڑی دار مزدور ، چھوٹے سرکاری ملازم ،سکول ٹیچر وغیرہ ۔ بڑے سرکاری افسر مرضی سے دفتر آتے اور جاتے ہیں ۔ نہ بھی آئیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

پولیس کا انسپکٹر اور آئی جی یکساں زندگی گزارتے ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پولیس میں اصل عہدہ انسپکٹر یاتھانیدار کا ہی ہے باقی سب عہدے نمائشی ہیں ۔ ایک با اصول آئی جی صاحب نے بتایا کہ میرے اور انسپکٹر کے اختیارات میں فر ق نہیں ۔ میرا اضافی کام ٹرانسفر اور پوسٹنگ ہے ۔ پھر ہنس کر کہنے لگے اب یہ بھی نہیں چونکہ سیاستدان اور دوسرے با اثر لوگ اپنی پسند کے تھانیدار تعینات کر واتے ہیں ۔ پنجاب او ر سندھ میں ایسا نہ کرنے پر آئی جی بدل جاتا ہے اور تھانیدار من پسند جگہ پر چلا جاتا ہے ۔ پوچھا یہ با اثر لوگ کون ہیں ۔ کہنے لگے ہر سطح کے لوگ ہیں ۔ ان میں سمگلر ،منشیات کا دھند ا کرنے والے، میڈیکل سٹوروں کے بڑے بڑے مالکان ،حلوائی، دھندہ کرنیوالی عورتیں ،سیاستدان ،سیاسی ورکر ،بھکاریوں کے ایجنٹ ،سول سوسایٹی  کی کچھ خواتین جن میں غیر سرکار ی تنظیموں سے منسلک خواتین بھی شامل ہیں ۔ یہ ایک لمبی فہرست ہے ۔ اسی طرح ہر محکمے کے چھوٹے ملازم ہیں جو بڑے ملازمین کو کنٹرول کرتے ہیں اور من پسند جگہوں پر رہنا پسند کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو اصل حکمران یہی لوگ ہیں باقی سب نمائش اور پروٹوکول ہے ۔ ہاں مافیا کا معاملہ الگ ہے ۔ جن میں لینڈ مافیا اور ڈرگ مافیا سب سے زیادہ طاقتور ہے ۔ یہ لوگ آئین اور قانون کے دائرے میں نہیں آتے ۔ ان کا اپنا آئین اور قانون ہے ۔

یہی لوگ حکومتیں بناتے ہیں اور گراتے ہیں ۔ حکومت ان کی محتاج رہتی ہے اور عدل کاترازو ان کی مرضی سے اونچا نیچا ہوتا ہے ۔ یہ المیہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ ساری تیسری دنیا کا ہے ۔

زینت تھی تو تیسری دنیا کی مگر اس کی دنیا الگ تھی ۔ اسکا تعلق اند خوہی کے ترکمان قبیلے سے تھا ۔ اند خوہی افغانستان اور ترکستان سرحدپر ایک صحرائی گاءوں ہے ۔ نرگس نے بتایا کہ ان کے گاءوں میں تاجک ، ازبک اور ترکمان قبیلوں کے لوگ صدیوں سے اکھٹے رہتے ہیں ۔ کسی بھی دور میں ان قبیلوں میں کوئی رنجش نہیں ہوئی او رنہ ہی کبھی جھگڑا یا فساد ہوا ہے ۔ تینوں قبیلوں کے الگ الگ رسم و رواج ہیں ۔ ہماری آپس میں رشتہ داریاں بھی نہیں مگرباہمی اتفاق و اتحاد مثالی ہے ۔ ہر قبیلے کا الگ جرگہ ہے ۔ جرگے کا سر براہ عالم دین اور انتہائی معتبر شخص ہوتا ہے ۔ کسی بھی اختلاف یا ناگہانیت کی صور ت میں قبیلے کا چیف جرگہ طلب کر تا ہے اور اسلامی اصولوں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے ۔ قبائل کے باہمی اختلاف پر تینوں قبیلوں کے چیف ملکر فیصلہ کرتے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہوتا ہے ۔ فصلیں بہت کم ہوتی ہیں اورپہاڑوں پر بر ف باری ہوتی ہے ۔ ایک بڑی ندی آموں دریا سے نکل کر ترکمانستان کی طرف جاتی ہے ۔ یہ ندی مکمل دریا ہے جوسار ا سال بہتا ہے ۔ دریا کبھی زیر زمین اور کبھی سطح زمین پر آتا ہے ۔ جہاں دریا سطح زمین پر آتا ہے وہاں بستیاں آباد ہیں ۔ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ پالتے ہیں جو آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے ۔ قالین بافی کا ہنر عام ہے اور یہ عورتوں کی گھریلوں صنعت ہے ۔ اند خوہی اور ملحقہ علاقوں کے قالین ساری دنیا میں مشہور ہیں ۔ ایرانی اور ترک ہنر مند بھی ہمارے نمونوں اور نقش نگاری کے معتر ف ہیں ۔

زینت نے بات کرنے کی اجازت مانگی تو ویٹر چائے لے آیا ۔ میں نے کہا پہلے چائے پی لو ۔

و ہ چائے پی رہی تھیں تو میرا خیال زینت بی بی اور زینت خان کی طرف چلا گیا ۔ کتنا فرق تھا تینوں میں ، زینت بی بی ایک بینک منیجر کے ساتھ آئی تھی اس کے بیٹوں کا میڈیکل کالج میں داخلے کا مسلۃ تھا ۔ وہ انتہائی تیزو طرار عورت تھی ۔ لمبا قد ،صحت مند جسم ، یوں لگتا تھاجیسے امریکن باسکٹ بال ٹیم کی کھلاڑی ہو ۔ مگر وہ صرف باتوں کی کھلاڑی تھی اور اپنے کھیل میں ماہر تھی ۔ کئی محکموں کے افسر اسے جانتے تھے مگر کچھ مسلئے ایسے بھی ہوتے ہیں جو تھانوں ،پٹوار خانوں اور زیب و زینت کے دیوانوں کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں ۔ زینت کچے اور وقتی کام کی عادی نہ تھی ۔ ویسے تو کوئی بھی چاہنے والا اسے کچھ رقم دے سکتا تھا مگر یہ پانچ سال کا دورانیہ تھا اور تین بیٹوں کے مستقبل کا مسلۃ تھا ۔ پانچ سالوں میں کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ زینت بیمار ہوکر اپنی جسمانی کشش کھو سکتی تھی ۔ افسروں کا کیا آج اِدھر تو کل اُدھر کسی اور علاقے اور صوبے میں ۔ ایسے لوگ جہاں جاتے ہیں زینت کے محل اور محفلیں ان کی منتظر ہوتی ہیں ۔ غر ض مند اور عادی مجرم افسروں کی نبض جانتے ہیں ۔ زینت بظاہر سوشل ورکر تھی اور درجن بھر لڑکیاں ہر وقت اس کے گھر موجود رہتی تھیں ۔ سب کا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے تھا ۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔ شاطر، حاضر جواب اور اپنے فن کی ماہر ۔ زینت کا گھر بھی ٹی ہاءوس تھا ۔ فرق اتنا تھا کہ ہمارے دفتر میں صرف چائے ملتی تھی جبکہ زینت کے گھر میں چائے کے ساتھ ایرانی بسکٹ بھی پیش کیے جاتے تھے ۔ رکھ رکھاءو اور ادب و آداب سے ہر لڑکی اور عورت واقف تھی مگر تین بچوں کا میڈیکل کالج میں داخلہ اور پھر ایک بچے کی ٹیوشین فیس کی معافی بڑا مسلۃ تھا ۔ نہ افسر، نہ خوبصورت لڑکیاں اور عورتیں اس مسلئے کا حل جانتی تھیں ۔ افسر تسلیاں دیتے تھے اور لڑکیاں اپنے جاننے والوں کو فون کرتیں اور کہتیں یار کچھ کرو ناں ۔ چیف سیکرٹری سے یا پھر کسی وزیر سے بات کرو ۔ گورنر صاحب سے بات کرو جنہوں نے کبھی گورنر ، چیف سیکرٹری اور کسی وزیر کی شکل بھی نہ دیکھی تھی وہ بھی امید دلاتے تھے اور بیچاری لڑکیوں کو تسلیاں دیتے تھے ۔ لڑکیاں زینت کو تسلی دیتیں ، باجی فکر نہ کریں کچھ نہ کچھ ہوجائیگا ۔ کوئی کہتی میرا دوست جج کا بیٹا ہے ۔ کوئی ڈی آئی جی کے بیٹے یا کسی بڑے کاروباری بندے کا نام لیتی جو بندگی کے آداب بھول کرلڑکیوں کی خدمت پر مامور تھے ۔ کچھ بے بس اور مجبور تھے اورکچھ شرسار اور سچے اور غمخوار تو تھے مگر لاچار تھے ۔ ہر کوئی اپنی محبوبہ کی خوشنودی تو چاہتا تھا مگر کچھ کرنہیں سکتا تھا ۔

بینک منیجر زینت کو چھوڑ کر چلا گیا تو ایک ایجنسی کا پولٹیکل ایجنٹ اور تحصیلدار آگے ۔ پھر سید فیروز شاہ گیلانی آئے تو ساتھ کچھ شرفاَاور علماَ بھی تھے ۔ زینت نے سب کو سلام کیا اوراُ ٹھ کر چلی گئی ۔ تحصیلدار اسے جانتا تھاوہ اسے باہر گاڑی تک چھوڑ نے چلا گیا ۔ زینت کی کہانی بہت لمبی ہے اسے بیان کرنے کے لیے کسی واجد ہ تبسم ،منٹو ، قراۃ العین حیدر، خشونت سنگھ ، جیکولین سوزن ،کشورنائید ، تارڑ ، جنسیاتی مطالعے والے علی عباس جلالپوری یا پھر کوئی عصمت چغتائی درکار ہے ۔بحرحال معاشرے میں اس کا ایک مقام تھا اور بڑے  بڑے  لوگ اس سے ملنے آتے تھے . زیادہ تعداد مشرف کے حامی روشن خیالوں    کی تھی . لوگوں کا خیال تھا کہ جنرل مشرف پرانے فرسودہ نظام کو بدل کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھے گا      

زینت کئی بار آئی مگر سچ سے پر ہیز کرتی رہی ۔ میں نے کہا تم اپنے بیٹوں کو ساتھ لاءو ۔ وہ خود تو نہ آئی مگر بیٹوں کو بھجوا دیا ۔ میرے معاون کمال خان نے انھیں کہا کہ اپنے شناختی کارڈ اور والدکو بھی ساتھ لائیں تاکہ گورنر ،وزیر صحت اورکالج پرنسپل کے نام درخواست بھجوائی جائے ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کا کام بن جائے ۔ دوسرے دن لڑکے شناختی کارڈ لے آئے مگر باپ ساتھ نہ تھا ۔ لڑکوں نے خود ہی اپنا کام آسان کردیا ۔ انہوں نے کمال کے سامنے بیٹھ کر درخواست لکھی کہ فلاں سن میں ہمارا والد سول انجینئر فلاں خان سعودی عرب میں وفات پاگیا تھا ۔ والدہ نے دوسری شادی کرلی ہے اور ہم نے بڑی مشکل سے تعلیم حاصل کی ہے ۔ والد کا تعلق قبائلی علاقہ سے تھالٰہذا ہمیں قبائلی کوٹے پر داخلہ دیا جائے ۔

لڑکوں نے سچ بولا اور سچائی اور میرٹ کے علاوہ قبائلی بیک گراءونڈ کی وجہ سے تینوں کو داخلہ مل گیا ۔ ایک لڑکے کی گورنر سیّد افتخار شاہ نے فیس معاف کر دی اور دوسرے کی فیس میں پر نسپل نے کمی کر دی ۔ یہ سہولت جنرل پرویز مشرف کے حکم سے تھی جس کی وجہ سے تینوں لڑکے ڈاکٹر بن گئے ۔

زینت کبھی کبھی فون پر شکریہ کہتی تھی اور جنرل پرویز مشرف کودعائیں دیتی تھی ۔ وہ جمعرات کے دن اپنے گھر میں دعا کرواتی تھی جہاں ساری سوشل اورسیاسی ورکر مل کر ذکر کرتیں  اورصدر پرویز مشرف کے لیے خصوصی دعا کی جاتی تھی ۔

ہمارے دفتر کی وساطت سے ہزاروں لوگو ں کے کام ہوئے اور سب کے سب پرویز مشرف کو دعائیں دیتے تھے ۔ ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی کے ڈاکٹر نذیر احمد گر دیزی نے تو روزنامہ مشرق میں کالم لکھے اور ہمارے دفتر والوں کو گولڈ میڈل دینے کی سفارش بھی کرڈالی ۔ ڈاکٹر صاحب نے صدر مشرف کے نام خط میں لکھا کہ آپ کے دور میں جو سہولیات عوام کو مل رہی ہیں ایسا کبھی کسی دورِ حکومت میں نہیں ہوا ۔ آج واقعہ ہی انصاف عوام کو دہلیز پر مل رہا ہے ۔ یہ سب کسی اور حکمران کے نصیب میں نہ لکھا تھا ۔ تاریخ آپ کو ایک عادل اور عوام کا دوست حکمران کے نام سے یاد کرے گی ۔ آپ نے ہمارے دفتر کے علاوہ شہید ڈی آئی جی ملک سعد کو بھی گولڈ میڈل دینے کی سفارش کی ۔ لکھا تھا کہ متعلقہ دفتر سے جو درخواست ملک سعد کے پاس جاتی ہے دوسرے ہی دن اس پر کام ہوجاتا ہے ۔

ان کالموں اور اسی طرح کے اخباری بیانوں کی وجہ سے ہماری نگرانی سخت ہوگئی مگر کام کی رفتار بھی بڑھ گئی ۔ پتہ نہیں جنرل مشرف کو دعائیں لگیں یا نہیں مگر ہم پر کسی دعا کا اثر نہ ہوا ۔ ہم جیسے اس دفتر میں گئے تھے ویسے ہی واپس آگئے اور اب تک ویسے ہی ہیں ۔ شاید یہ بھی دعاؤں کا ہی اثر ہے کہ طوفانوں کے بیچ ہم تختے پر تیررہے ہیں اور الحمداللہ سلامت بھی ہیں ۔

درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
(دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا تمھارا دامن تر نہ ہونے پائے۔)

حقیقت تو یہ ہے کہ جو تختے پر ڈالتا ہے وہی بچاتا ہے ورنہ آدمی کی کوئی حیثیت نہیں ۔ لگتا ہے مشرف بھی تختے پر ہی ہے اور دعاءو ں کے اثرات کی زد میں ہے ورنہ چوھدریوں کی یار ی ، تاش کی بازی اور پیر الطاف کی خدمت گاری اور حکمرانی کے نشے سے دامن تر کرنے کے باوجود تختے پر بحر طلاطم میں تیر رہا ہے ۔ جنرل مشرف کو ہمار ا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ہم نے چار سال تک انہیں مسلسل دعائیں سپلائی کیں اور جب تک ڈیڑھ سو سال پرانے انگریز کے تعمیر کیے ہوئے دفتر میں بیٹھے رہے جنرل مشرف کو مفت دعائیں بھجواتے رہے ۔ ڈاکٹر نذیر گردیزی نے ایک کام کے بدلے میں چار کالم اور ایک خط جنرل مشرف کے نام لکھا اور دس بار شکریہ ادا کیا ۔ مگر جنرل مشرف نے نہ تو کبھی ہمارا شکریہ ادا کیا اور نہ بدلے میں کوئی دوا بھجوائی یا دعا دی ۔

سنا ہے کہ سیّد مشرف شاہ پر اب دوائیں بھی اثر نہیں کرتیں اور ماسوائے ماں کے اب دعائیں دینے والا بھی کوئی نہیں رہا ۔ ان کی پارٹی کا حال یہ ہے کہ سوائے سیکرٹری جنرل مہرین ملک کے کسی اور پر شاہ صاحب کی دعا بھی اثر نہیں کرتی ۔ مہرین ملک ہی ان کے سیاسی اور روحانی ورثے کی مالک ہیں ۔ میری مہرین ملک سے تین ملاقاتیں ہوئیں مگر میں ان کی سیاست اور روحانیت کے متعلق کوئی رائے قائم نہ کرسکا ۔ دو ملاقاتیں ان کے دفتر میں ہوئیں مگر گفتگو میں جنرل مشرف کی جگہ ڈاکٹر امجد تھے ۔ وہ چاہتی تھیں کہ ڈاکٹر امجد کو مزید سوشل اور شیپ اپ ہونے کی ضرورت ہے ۔ ان کی گفتگو عالمانہ تھی اور علم کا دائرہ زیادہ وسیع نہ تھا ۔ ایسے عالموں اور عاملوں کا مخصوص علم اور دائرہ محدود ہوتا ہے ۔ عائشہ گلالئی ،تہمینہ د رانی ،ریحام خان ، نسیم زہرہ، شریں مزاری ، شیریں رحمان اور مرحومہ سرفراز اقبال بھی عالمہ تھیں ۔ مرحومہ سرفراز اقبال کی دو کتابیں میری لائبریری میں ہیں جو خود اُنہوں نے عنایت کئیں ۔ دونوں کتابیں بے مثال اور منفرد سٹائل میں لکھی گئی ہیں ۔ ان کی گفتگو میں سحر تھا او رتحریر میں تسلسل ہے ۔ ’’جو بچے تھے سنگ ‘‘ جیسی کتاب لکھنا آسان نہیں گلبدن بیگم کی ہمایوں نامہ بھی ایک منفرد تحریر ہے ۔ ہمایوں نامہ اور تزک بابری کی ایک جھلک سرفراز اقبال کی تحریر وں میں بھی ہے ۔ تہمینہ رانی کی بلس فہمی اور مینڈا سائیں بھی اسی اندازسے لکھی گئی ہیں ۔ مرحومہ کلثوم سیف اللہ کی ’’میری تنہاپرواز ‘‘ اچھی سوانح حیات ہے جو زندگی کے ایک ہی پہلو پر لکھی گئی ہے ۔ عائشہ گلالئی کی تحریر ابھی تک منظر پر نہیں آئی اورنہ ہی مہرین ملک نے ابھی تک کچھ لکھا ہے ۔

لاہور میں بھی ایک زینت ہے ۔ شاید اور بھی ہونگی ۔ میری خالہ زاد بہن کا نام ملکہ ہے مگر وہ ملکہ نہیں البتہ اسکا خاوند بادشاہ ہے ۔ اس کی طبیعت شاہانہ ہے اگر فوج میں ہوتا تو جنرل مشرف سے بڑھ کر بادشاہ ہوتا ۔ میرے دفتر میں دو ریٹائیرڈ کرنل آئے ۔ پہلے آکر تعارف کروایا اور کہا”آئی ایم کرنل فقیر ”کرنل صاحب بیٹھے ہی تھے کہ دوسرے کرنل صاحب تشریف لائے ۔ میں نے کرنل فقیر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا یہ کرنل فقیر ہیں ۔ دوسرے نے ہا تھ ملاتے ہوئے کہا میں کرنل بادشاہ ہوں ۔ دونوں ہنس پڑے اور گلے ملے چونکہ دونوں ہی فقیر تھے ۔

حرم پاک میں ایک صاحب لوگوں میں رومال تقسیم کررہے تھے ۔ ایک رومال مجھے بھی دیا ۔ کچھ دیر بیٹھے اور پھر اکتا گئے ۔ دوسری جانب خواتین کا حصہ تھا اور بیٹھنے کی جگہ نہ تھیں ۔ درمیان میں ایک خاتون کھڑی تھی ۔ رومال بانٹنے والے صاحب نے آواز دی’’ ملکہ میں باہر جارہا ہوں تم بھی آجاو ‘‘دھمکی آمیز لہجے سے لگتا تھا کہ وہ کعبہ شریف کی طرف منہ کیے کھڑی ملکہ کا بادشاہ ہے ۔ اسے خیال نہ آیا کہ وہ کائنات کے شہنشاہ کے گھر میں کھڑا ہے ۔ ملکہ اپنی جگہ کھڑی رہی اور مسلسل بیت اللہ کی طرف دیکھتی رہی ۔ وہ واقعی ملکہ تھی چونکہ اُسے شاہانہ آداب کا پتہ تھا ۔ کوئی ڈیڑھ یا دوگھنٹے بعد نماز جمعہ کی اذان ہوئی تو عورتیں نماز کے لیے کھڑی ہوگئیں تو ملکہ سمیت سب کے لیے جگہ بن گئی ۔

بعض لوگ اپنے نام کی لاج رکھتے ہیں اور بدنام نہیں ہوتے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ بیٹیوں کے نام صاحباں ، سسی ،سوہنی ، لیلا ، شیریں ، سیاں ، ہیر ، شجر الدہر ،زلیخا اور شمع رکھتے ہیں ۔ کراچی میں ایک شیریں دخت نامی خاتون تھی جسے شمال میں واقع شمشال سے عشق تھا ۔ یہ تب کی بات ہے جب شمشال تک کوئی سڑک نہ جاتی تھی ۔ تب شمشال میں سادگی اور حسن تھا ۔ پہاڑی کے ساتھ ساتھ ایک میول ٹریک تھا جہاں تھوڑے تھوڑے وقفے بعد پتھر گرتے تھے ۔ پسو گاءو ں سے شمشال کو راستہ جاتا تھا اور بہت سے مقامی لوگ آتے جاتے اور خوفناک کہانیاں سناتے تھے ۔ کہتے تھے شیطان پتھر گراتاہے ۔ شیریں اپنی ٹیم کے ہمراہ شمشال اِن میں رہتی تھی اور ہم نے خیمہ بستی بسارکھی تھی ۔ ہماری ٹیم میں سارے ہی فرہاد تھے اورشریں کی ٹیم میں سسی ، صاحباں ، لیلا ،ہیر اور دیگر نا مور خواتین کی بھرپور نمائندگی تھی ۔ دریائے ہنزہ کے کنارے سنگلاخ نوکیلے پہاڑوں کے درمیان یخ بستہ ہواءوں کے طوفان تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے ۔ شارع ابریشم ویران تھی اور ٹریفک انتہائی کم تھی ۔ پسو گاءوں سے تھوڑا ہی دور پسو گلیشئر تھا ۔ ہوا ،دریا اور گلیشیر مل کر ایسا ماحول بناتے تھے کہ جیسے ہم کسی ایسے رن وے کے کنارے ہوں جہاں بہت سے جمبو جیٹ اترنے اوراڑنے کی کوشش میں ہوں ۔

ایک دو روز کی خاموشی کے بعد شیریں اور فرہاد گروپ میں دوستی ہوگئی اور دونوں ٹی میں شیطان کی پروہ کیے بغیر شمشال روانہ ہوگئیں ۔ یہ ایک مثالی اتحاد اور ہم آہنگی تھی ۔ عمران خان بھی شمال کے شیدائی ہیں انہیں چاہئے کہ اسمبلی کا ایک اجلاس شمشال میں کریں ۔ مجھے یقین ہے کہ شیریں مزاری ، شیریں رحمان ، سسی پلیجو اور دیگر میں ایسی ہی محبت پروان چڑھے گی جو بے مثال و بے نظیر ہوگی ۔ عائشہ گلالئی ، نسیم زہر ہ ،ریحام خان اور مہرین ملک کو بھی مشیر رکھ   

 لیں تو کوئی حرج نہیں ۔ سیاست نام ہی میل ملاپ کاہے تو پھر ملنے ملانے میں دیر کیسی ۔

(جاری ہے )

Exit mobile version